ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
خود بخود عمل چل پڑتا ہے اور اگر وہ عمل نہ کرے تو پھر دُوسروں سے کہتا رہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ فلسفہ ہے یا وعظ ہے حقیقت کچھ نہیں ہے یہ خود کیا کرتا ہے، جو یہ کرتا ہے وہی سب کرتے ہیں ۔ تو رسول کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے ایک خون اور معاف کیا کہ وہ ختم ہے میں اُس کا بدلہ نہیں لوں گا ہمارے خاندان کا کوئی آدمی اُس کا بدلہ نہیں لے گا۔ اور دُوسرے یہ کہ جو '' سود'' میرے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا جن لوگوں کی طرف ہے وہ سب معاف ہے ،یہ اِعلان فرمایا گویا خود عمل کیا سب سے پہلے تو اَب کسی کو بھی گراں نہیںگزرتی بات سب کے سب پھر وہ عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو حاکم ِ اعلیٰ کر رہا ہے ،اگر حاکم ِ اعلیٰ اِیثار کرے گا وہی سب میںآتی چلی جائے گی تو رسول اللہ ۖ اِیثار کرتے تھے اپنے آپ پر دُوسرے کو ترجیح دیتے تھے تو یہ تعلیم ہی نہیں دی فلسفہ ہی نہیں سکھایا بلکہ کیا بھی ہے اِسی طرح سے ،تو پھر سب صحابہ کرام میں وہی چیز ...........اور اِتنا اِیثار کرنے لگے صحابہ کہ قرآنِ پاک میں تعریف آگئی ( یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَة) چاہے خود شدید ضرورت ہو پھر بھی دُوسرے کو اپنے اُوپر ترجیح دیتے ہیں۔ توسرورِ کائنات علیہ الصلوة والتسلیم نے یہاں فرمایا کہ اَکْلُ الرِّبَوا یہ جو سود کھانا ہے یہ بھی مُہلِکات میں ہے اِنسان کی طبیعت مسخ ہو جاتی ہے اور پھر جب مسخ ہوجائے تو گناہ کی طرف چل پڑتا ہے نیکی سے دُور ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور تباہی میں گرجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح راہ پر قائم رکھے اَعمالِ صالحہ کی توفیق دے اور آخرت میں رسول اللہ ۖ کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔اِختتامی دُعا. ..................