ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
سے مضبوط آہنی قلعے خدا وند ِقدیر کی اِمداد کے سامنے تارِ عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں۔ کامیابی کا آفتاب ہمیشہ مصائب و آلام کی گھٹاؤں کو پھاڑ کر نکلا ہے۔ ( اَلم O اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَایُفْتَنُوْنَ O وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِ بِیْنَ ) ( عنکبوت ١ تا ٣ ) ''کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ چھوٹ جائیں گے اِتنا کہہ کر کہ ہم یقین لائے اور اُن کو جانچ نہ لیں گے اور ہم نے جانچا ہے اُن کو جواِن سے پہلے تھے، سو اَلبتہ معلوم کرے گا اللہ جو لوگ سچے ہیں اور اَلبتہ معلوم کرے گا جھوٹوں کو۔'' خوف کھانے کے قابل اگر کوئی چیز ہے تو خدا کا غضب اور قاہرانہ اِنتقام ہے اور دُنیا کی متاعِ قلیل خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اُس کے اِنعامات کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔( قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْل وَّالْاٰخِرَةُ خَیْر لِّمَنِ اتَّقٰی وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا)( سُورۂ نساء ٧٧ )''کہہ دے کہ فائدہ دُنیا کا تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے پرہیز گار کو اور تمہارا حق نہ رہے گا ایک تاگے کے برابر۔'' مطلق تعلیم کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت اَب میری قوم کو نہیں رہی کیونکہ زمانے نے خوب بتلادیا ہے کہ تعلیم سے ہی بلند خیالی اور تدبر اور ہوش مندی کے پودے نشو نما پاتے ہیں اور اِسی کی روشنی میں آدمی نجات و فلاح کے راستے پر چل سکتا ہے، ہاں ضرورت اِس بات کی ہے کہ وہ تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور اَغیار کے اَثر سے بالکل آزاد ہو، کیا باعتبارِ عقائد و خیالات کے اور کیا بااعتبارِ اخلاق و اعمال کے اور کیا با اعتبارِ اَوضاع و اَطوار کے اَثرات سے پاک ہو۔ ہمارے کالج نمونے ہونے چاہئیں بغداد اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں کے اور اُن عظیم الشان مدارس کے جنہوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا اِس سے پیشتر کہ ہم اُن کو اپنا اُستاذ بناتے۔''