ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
اب اگر حکومت ِ وقت نے اَکابر کے حوصلہ اور ثابت قدمی کو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھا یا اِس کو کسی کمزوری پر محمول کر کے نظر اَنداز کرنے کی غلطی کی تو آنے والا کل بڑا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت ِوقت کو یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اِس ملک کی اَسی فیصد آبادی اہل سنت والجماعت پر مشتمل ہے اہل ِتشیُّع اِس ملک میں مشکل سے پانچ فیصد بھی نہیں ہیں اِس کے باوجود ہر سال عاشورۂ محرم کے موقع پر پورے ملک میں جس طرح وہ اُدھم مچاتے ہیں وہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ عید الفطر اور عیدالاضحی جیسے اہم مذہبی تہواروں کی تعطیلات کے معاملہ میں ہماری حکومتیں اِنتہائی بخل سے کام لیتی ہیں اور بہانہ یہ بنایاجاتا ہے کہ کارو بارِ زندگی معطل ہوجانے سے اَربوں روپے کا نقصان ہوجاتا ہے جبکہ دُوسری طرف ایک حقیر اَقلیتی فرقہ کے خود ساختہ ماتمی جلوسوں کی خاطر بلاوجہ اہل سنت کی اَکثریت کودو دِن کے لیے کاروباری سر گرمیاں بندکرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جس سے فی الواقع ملک کو اَربوں روپے کے خسارہ کے ساتھ ساتھ لڑائی جھگڑوں اور قتل وغارت گری سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ہر چھوٹی بڑی شاہراہ پرعوام الناس کی آزادانہ آمد و رفت بند کر دی جاتی ہے اور یوں عملاً پورے ملک کا بِلا وجہ پہیہ جام کر دیا جاتا ہے۔مزید برآں یہ کہ اِن عادی شرپسندوں کے جعلی ماتمی جلوسوں کو اِس طرح تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جیسے یہ پوراملک ہی شیعوں کا ہو۔ راولپنڈی کے عظیم سانحہ کے بعد حکومت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور قانون ساز اِداروں کو اپنی ذمہ داری کا اِحساس کرتے ہوئے فوری قانون سازی کے ذریعہ اِس حقیر سی اَقلیت کی دھینگہ مشتی کو لگام دیتے ہوئے تمام تعزیہ داری کے جلوسوں پر پابندی لگادینی چاہیے اور سابقہ تمام لائسنس منسوخ قرار دے کر آئندہ کے لیے کسی بھی قسم کے لائسنس کے اِجراء کا قانون ختم کردینا چاہیے ۔ جلوس نکالنا عبادت نہیں ہے بلکہ شرارت ہے عبادت عبادت گاہوں میں ہوتی ہے سڑکوں پر نہیں، ملک کی اکثریت جو کہ اہلِ سنت و الجماعت سے تعلق رکھتی ہے اُس کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت کو اہل ِتشیُّع پر یہ حقیقت پوری طرح واضح کردینی چاہیے کہ یہ ملک رافضیوں کانہیں ہے بلکہ ملک کی اکثریت اہل سنت والجماعت کا ہے لہٰذا یہ اَقلیت آئندہ اپنے مذہبی تہوار اپنی چار دیواری میں اَداکریں