ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
سلوب اور طورطریقہ کوبیان کیا، دُعاکے آداب کی طرف رہنمائی کی نیز اِس حقیقت کااِنکشاف کیاکہ دُعا بنی نوع اِنسان کاایک فطری عمل ہے جوآڑے وقت اور مشکلات میں پوری طرح جلوہ گرہوتا ہے۔ شریعت چاہتی ہے کہ یہ فطری عمل عیش وطیش، رنج وراحت، سودوزیاں، خوشی وناخوشی، نرمی وگرمی، تنگدستی وخوشحالی، عزت وذلّت ہرحال میں جاری رہنا چاہیے۔ دُعااپنے خالق ومالک سے براہِ راست تعلق وقرب کانہایت کامیاب اور سب سے زیادہ زُود اَثر اور نہایت مجرب عمل ہے،یہ اللہ تعالیٰ کااِحسان ہے کہ اُس نے ہمیں دُعا مانگنے کا حکم دیا ۔رسول اللہ ۖ کی ذاتِ ستودہ صفات جومسلمانوں کے لیے نمونۂ عمل ہے اور اِس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ ''دُعا'' آپ ۖ کی زندگی کانہایت روشن باب ہے ، آپ ۖ کی اَدعیۂ ماثورہ اَصحابِ فکر و نظر واَربابِ صدق وصفا کانظری وعملی دونوں اِعتبار سے نہایت پسندیدہ موضوع رہی ہیں۔ مفسّرین، محدثین، فقہاء ومتکلمین ، صوفیہ واُدبائ، ائمہ لغت، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اِس موضوع سے اِعتناء کیا چنانچہ کسی نے رسالت مآب ۖ کی دُعاؤں کواپنی سندوں سے جمع کیا، کسی نے اُن کے مطالب ومعانی کی وضاحت کی اور موقع ومحل کو بیان کیا، کسی نے توبہ واِستغفار پر کلامی نقطۂ نظر سے بحث کی، کسی نے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق کی، کسی نے اُن کی نحوی ترکیب سے اِعتناء کیا ، کسی نے اِس اَمر پر روشنی ڈالی کہ حضوراَکرم ۖنے نماز میں کیاکیا دُعائیں مانگیں، حج میں کس موقع پر کن الفاظ میں اللہ کے حضور اِلتجاکی، نمازِ جنازہ وتشہد وتہجد میں کیاکیا دُعائیں رسولِ خدا ۖ سے منقول ہیں۔جنگ وغزوات میں کس موقع پر کن الفاظ میں اپنے رب کویادکیا، خوشی کے موقع پر اپنے رب کو کن الفاظ میں پکارا اور مصیبت میں کن الفاظ سے اِلتجاء کی۔صوفیہ نے اپنے تجربات و اِلہامات سے اِن دُعاؤں کو اَحزاب واَوراد میں تقسیم کیا جو اَحزاب واَوراد کے نام سے معروف ومشہور ہیں، بعض نے اُن کے خواص واَثرات کوموضوعِ بحث بنایا اور اِس موضوع پر کتابیں تالیف کیں، کسی نے دُعا کی حقیقت کوبتایا اور اُس کی قبولیت کی شرائط پر روشنی ڈالی، اِس طرح دُعا کے گوناگوں پہلو زیرِبحث آتے رہے۔