معززین شرکاء مناظرہ وغلمدیوں کی پیش کردہ شہادت کا حلفیہ بیان
معزز ناظرین! اخیر میں ہم آپ کی توجہ ذیل کے ان معززین حضرات کے دستخط شدہ بیانات کی طرف مبذول کراتے ہیں۔ جو جلسہ مناظرہ میں شروع سے آخیر تک رہے اور مجاہد قادیانی نے بھی ان میں سے اکثر مثلاً محمد علی عثمان وغیرہ کو اپنی تائید میں اخبار الفضل مورخہ ۵؍ نومبر۱۹۲۹ء میں شائع کیا ہے۔
ہم خدائے تعالیٰ کو حاضر وناظر جان کر بحلف بیان کرتے ہیں کہ قادیانی جماعت کو جو فاش شکست اس مناظرہ میں ہوئی ہے۔ ہماری نظر سے ایسی شکست مناظرہ میں کسی باطل سے باطل مذہب کو بھی نہ ہوئی ہوگی۔ قادیانی جماعت کا یہ کہنا کہ ہر روز بعد از مناظرہ جناب نواب مہربان علی صاحب سپیشل مجسٹریٹ اور دیگر رئوسا میرٹھ نے علی الاعلان ان کے اسٹیج پر کہہ دیا کہ قادیانیوں کے مطالبات کا جواب ہماری طرف سے نہیں دیا گیا۔ بالکل غلط اور لغو ہے۔
غالباً قادیانی مجاہد اس نظارہ کو بھول گئے۔ جبکہ علماء احناف فتح یاب ہوئے تو روسائے میرٹھ نے یہ تمنا ظاہر فرمائی کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ حضرات کا جلوس قصبہ میں نکالا جاوے۔ جس کو حضرات علماء نے بڑے اصرار سے منظور فرمایا۔ جلوس جس شان سے اﷲ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے موٹر میں قصبہ میں نکالا۔ وہ دیکھنے سے ہی تعلق رکھتا تھا۔ اس کے بعد رئوسا میرٹھ نے ایک قیمتی بنارسی عمامہ حضرت مولانا عبدالشکور صاحب لکھنؤی کے فرق مبارک پر باندھا۔ چند حضرات مائل بہ مرزائیت ہوگئے تھے۔ وہ خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس قدر مضبوط ہوگئے کہ اب وہ خود مناظر ہیں۔ کسی قادیانی کو اب ہمت نہیں جو ان سے بحث ومباحثہ کرسکے۔
العبد …عزیز الرحمن بقلم خود نمبردار زمیندار، محمد علی بقلم خود (رئیس) ، محمد عثمان بقلم خود، عبدالرحمان بقلم خود، شرف الدین بقلم خود (رئیس)، عبدالغفور بقلم خود، سید علی بقلم خود (رئیس)، عبدالشکور بقلم خود، محمد ولایت علی بقلم خود پینشنر، رفیق احمد بقلم خود، عبدالرحمن بقلم خود (زمیندار)، فہیم الدین بقلم خود، رام چند بقلم خود، (بقلم ہندی)
٭………٭