رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ ایک اولوالعزم پیغمبر کی کیا توہین ہوسکتی ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’(معاذ اﷲ) ایک زنا کار کنجری نے آپ (مسیح علیہ السلام) کے سر پر ناپاک اور حرام کی کمائی کا عطر ملا اور اس کو بغل میں لیا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ! (ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) ’’لا حول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ ایسا شخص تو اسلام میں نہیںرہ سکتا۔ پھر اہل اسلام کا امام مہدی کیونکر بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہ تمام مذکورہ عقائد مرزاقادیانی کے بالاتفاق مخالف اسلام ہیں۔
اب ناظرین کو اس مختصر ومفید مضمون سے کم ازکم مرزائی حقیقت روشن ہو جائے گی کہ اس مدعی کاذب نے احکام الٰہی اور فرامین رسالت پناہی کی تخریب میں کس قدر کوشش بلیغ کر کے دنیا جمع کی ہے اور نفس امارہ کی پیروی میں کیا کچھ مرزاقادیانی نے نہیں کیا۔ مگر حشرات الارض ہیں۔ جو ایسے شخص کو بھی صادق سمجھ کر کیا کچھ نہیں مانتے۔
دوستو! غائر نظر ڈالو کہ حضرت امام مہدی موعود علیہ السلام کے اوصاف جو صحیح حدیثوں میں آئے ہیں۔ ان سے یہ واضح اور روشن ہے کہ ظہور موفور السرور پر صلیب پرستی اور کفر، بنیاد سے مٹ جائے گا۔ بتاؤ! کہ اس مہدی کاذب نے عمر بھر میں ایک اینٹ بھی کفر یا صلیب پرستی کی گرائی۔ ان سے یہ بھی تو نہ ہوسکا کہ سودوسو صلیب پرست ہی ان پر ایمان لاتے۔ پھر انہوں نے کیا کیا بجز اس کے کہ تہتر فرقوں کی مختلف شاخوں میں مرزائیت کی اور ایک شاخ کا اضافہ کر دیا۔ پھر اس کو مہدی موعود مانیں تو کیوں۔ دوسروں سے اس کی مہدویت منواؤ تو کیسے۔ وعدہ ’’یملاء الارض قسطاً وعدلاً‘‘ تو پورا نہ ہوا۔ ’’کما ملئت ظلماً وجوراً‘‘ میں اضافہ ضرور ہوا۔
کس قدر افسوس ہے کہ ان کی جماعت میں جو نیک طبع لوگ ہیں۔ وہ اس میں غور نہیں کرتے کہ مرزاقادیانی مجدد ہوئے، مہدی ہوئے، مسیح ہوئے، نبی ہوئے، رسول ہوئے، ابن اﷲ بنے، غرض کیا تھے کیا بن گئے۔ مگر اس عرصہ دراز میں اسلام اور مسلمانوں کو ان سے کیا نفع پہنچا؟ سو پچاس کی بھی ترقی نہ ہوئی۔ بلکہ ان کو نہ ماننے والے چالیس کروڑ مسلمان بھی ان کے نزدیک کافر ہوگئے۔ ایسے روشن حالات کے ہوتے ہوئے بھی تعجب ہے کہ ان کی جماعت جو معدودے چند نفوس ہیں۔ ان باتوں کو نہیں سمجھتے اور ضد وہٹ پراڑے ہوئے ہیں کہ ایمان جائے، مگر بات نہ جانے پائے۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ۰ نعوذ باﷲ من النفس الامارۃ بالسؤ والضلالۃ بعد الہدیٰ‘‘ رقمہ خادم الشریعۃ المطہرہ علی الحائری، محلہ شیعان
موچی دروازہ لاہور…… ماہ شعبان ۱۳۴۴ھ