گفتی بلکہ در مفتی جو کچھ فرمایا بجا فرمایا۔ کیا اتنا پوچھ سکتا ہوں کہ ایسی شرائط لگانے کے بعد علماء دیوبند کو ایسا خیال کیوں ہوگیا تھا۔ یا جناب نے علماء دیو بند کے متعلق ایسا ناطق فیصلہ کیوں فرمایا؟ فیہ مافیہ۔
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ شرائط اور خصوصاً شرط نمبر۳ مرزائی صاحبان کے بس کی بات نہیں۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ آپ کے تمام اندیشے اتمام حجت کے لئے فرداً فرداً پورے ہوکر رہے۔ اول تو تاریخ مقررہ پر مغرب کے وقت تک شرائط طے کرنے کے لئے ہی نہ آئے۔ پھر آئے بھی تو کہا کہ شرائط بذریعہ تحریر طے ہوں گی۔ آخر کیوں؟اس لئے کہ مقابلہ کے بعد ثبات قدمی کارے دارد۔
معرکہ پڑتے ہی اٹھ جائیں گے غیروں کے قدم
جب سمجھتا ہوں سمجھ لیں سر میداں ہم سے
خدا خدا کرکے مغرب کے قریب میدان میں آئے بھی تو پانچ گھنٹے ضائع کردئیے۔ مگر وہ تو بقول مجاہد صاحب مقابل کے بازوہی اس قدر مضبوط تھے کہ سینہ زوری سے جو کچھ چاہا منوا لیا اور غلمدی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے سوا کچھ نہ کرسکے۔
الفضل ما شہدت بہ الاعداء
اب رہی کیفیت مناظرہ اور اس کا انجام تو وہ پوچھو انیچولی کے زمین وآسمان سے یا ساکنان انیچولی سے وہ بتائیں گے کہ کیا ہوا۔ اگر ان سے سوال کر نے کی جرأت نہ ہو تو پوچھو اپنے ضمیر سے وہ جواب دے گا اور اگر اس سے پوچھتے ہوئے بھی حیا دامن پکڑتی ہے۔ تو پوچھنا میرے ان چند مطالبات سے جو میں اس تحریر کے اخیر میں عرض کروں گا۔ مگر آپ کی تو وہی مثل ہے کہ: ’’پہلے تو مار لیا اب کے تو مارو۔‘‘
عدو کی بزم میں دیکھو تو داغ کے تیور
ذلیل ہو کے بڑے افتخار سے اٹھا
’’فاضل مضمون نویس علم وفضل کا کیسا بے نظیر ثبوت دے رہے ہیں۔ نام خدا آپ مناظرہ ہیں اور عنوان مقالہ قائم کرتے ہیں۔‘‘(دیو بندیوں سے متعدد مطالبات) خود ہی مدعی خود ہی مطالبات۔
خود کوزۂ وخود کوزہ گر وخود گل کوزہ