ملا ویں گے۔ یعنی ہر چیز اپنی اپنی اصل کی طرف رجوع ہوکر مل جاوے گی۔ بقول ’’کل شی ئٍ یرجع الی اصلہ پس منہا خلقناکم وفیہا نعیدکم (طہ:۵۵)‘‘ سے یہ ہی مراد ہے کہ تم کہیں مرو مگر زمین پر ہی مرنا ہے۔ خواہ پہاڑ یا درخت یا تخت یا پانی یا زمین پر یا پانی میں یا زمین میں یا آگ میں۔
یہ سب زمین پر ہی مرنا مراد ہے اور بعد موت موافق اندازہ ہر خلط اپنے اپنے اصل مادہ یعنی اپنے معدن کی طرف رجوع ہوکر شامل ہو جائے گی۔ چنانچہ یہ دیگر آیہ اس کی موید ہے۔ ’’قال فیہا تحیون وفیہا تموتون ومنہا تخرجون (اعراف:۲۵)‘‘ {اس زمین میں جیو گے اور اسی زمین میں مرو گے اور اسی زمین سے نکالے جائو گے۔}
پس آیہ منہا خلقنکم کی مراداس آیہ بالاسے صاف ثابت ہوگئی کہ جب جزاعظم (یعنی زمین) کی طرف نسبت خلق انسان خطاب تھا۔ اسی کی طرف پھر خطاب ہے کہ ہم پھر انسان کو مثل سابق انہیں جزئیات عناصر کے ساتھ اٹھائیں گے۔ غرض انسان میں چاروں اخلاط کا خلاصہ جزوجوہر شریک ہے اور پانچویں روح جدی اس جسم سے نہیں جس کا واضح ثبوت سابق گزرا اور اس آیہ ذیل سے ثابت ہے۔
’’الذی احسن کل شی ئٍ خلقہ وبدا اخلق الانسان من طین ثم جعل نسئلہ من سللۃ من مائٍ مہین ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ…الخ (سجدۃ:۸،۹)‘‘ {ایسا جس نے اچھی کی ہر شے کی خلقت اس کی اورر شروع کی خلقت انسان کی مٹی سے پھر بنائی اولاد اس کے نکلتے ہوئے پانی ذلیل سے پھر برابر کیا اسے اور پھونکی اس میں روح اپنی}
یعنی آدم کی گوندھی ہوئی مٹی سے اور اولاد ان کی کو قطرہ آب ذلیل سے پیدا کیا۔ تو اس سے یہ مراد نہیں کہ آدم علیہ السلام خالص مٹی سے اور اولاد خالص قطرہ پانی سے بلکہ وہی مراد ہے کہ آدم علیہ السلام کے جز مرکبات عناصر کے خلاصہ مقطرات سے اولاد کی نسل بڑھائی گئی اور روح علیحدہ ہے۔
پس اب تو بخوبی یقین آ ہی گیا ہوگا اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ قادیانی صاحب کی اصل خلقت انسانی نہیں بلکہ اس خلقت سابق سے جو آدم سے اول ہے۔ کیونکہ منجملہ ان کے یہ وہی ایک کیڑہ ہیں۔ جو بقول خود صورت انسان میں ہوئے اور جنات بھی بصورت انسان وبصورت