۲/۲… تبصرۃ العقلائ: یہ رسالہ بھی مولانا علی الحائری کا ہے۔ اس کے ٹائٹل پر مصنف نے اس رسالہ کا تعارف تحریر کیا ہے: ’’بتائید رب جلیل یہ رسالہ مرزا قادیانی اور حضرت امام حسینؓ کے حالات کا قرآن مجید اور ملائکہ اور انبیاء سلف سے تقابل کرکے آنجناب (سیدناحسینؓ) کی فضیلت کا ثبوت ہے۔‘‘ یہ رسالہ چوالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ ۲؍ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ مطابق ۸؍جولائی ۱۹۰۲ء کو آپ نے مکمل کیا۔ اس میں آپ نے خالصتاًشیعہ نقطہ نظر سے سیدنا حسینؓ کے مقام ومنصب کو بیان کیا۔ ظاہر ہے کہ ان مباحث کا ہمارے موضوع ’’احتساب قادیانیت‘‘ سے تعلق نہ تھا۔ ہاں! البتہ رسالہ، ملعون قادیان کے رد میں لکھا گیا تھا۔ اس لئے ردقادیانیت کا حصہ تو اس رسالہ سے ہم نے لے لیا۔ جو شیعی نقطہ نظر تھا۔ اسے حذف کردیا گیا اور جہاں جہاں سے حذف کیا اس کے لئے علامتی نشان … یعنی نقطے ڈال دئیے۔ غرض ۴۴صفحات میں سے ۲۶صفحات ہم نے لئے۔ باقی کو ترک کردیا۔ جو حصہ لیا اس میں بھی شیعہ نقطہ نظر کی جھلک موجود ہے۔ اس لئے کہ مصنف شیعہ ہے۔ لیکن ردقادیانیت پر شیعہ حضرات کا موقف جاننے کے لئے اس رسالہ کو ملخصاً احتساب قادیانیت کی اس جلد میں لے لیا ہے۔
۳/۳… مہدی موعود: یہ رسالہ بھی مولانا علی الحائری کا ہے۔ یہ چوبیس صفحات پر مشتمل ہے۔ آپ نے یہ رسالہ شعبان ۱۳۴۴ھ میں تحریر کیا۔ گیلانی پریس لاہور سے خواجہ بک ایجنسی نے شائع کیا۔ اس میں بھی سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے متعلق تمام شیعہ نقطہ نظر آپ نے تحریر کرکے ملعون قادیان کے دعویٰ مہدویت کو اس پر پرکھا ہے اور اسے خوب کذاب ودجال ثابت کیا ہے۔ یہ رسالہ بھی خاصہ حذف کرنا پڑا کہ سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے متعلق شیعہ حضرات کا کیا موقف ہے؟ یہ ہمارے سلسلہ ’’احتساب قادیانیت‘‘ کا موضوع نہیں تھا۔ اس لئے اسے حذف کیا۔ ۲۴صفحات لئے۔ جہاں سے حذف کیا علامتی نشان … یعنی نقطے ڈال دئیے۔ اس کے باوجود بعض چیزیں شیعہ نقطہ نظر کی بھی رہنے دی گئیں۔ ورنہ مرزا قادیانی کی جو گرفت مصنف نے کی ہے وہ باالکل سمجھ نہ آتی۔ یہ ناگزیر تھا۔ اس کو گوارا کرلیا گیا۔
۴/۴… مسیح موعود: یہ رسالہ بھی مولانا علی الحائری کا ہے۔ اس کا تعارف خود مصنف نے ٹائٹل پر یہ دیا: ’’مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام کا قرآن وحدیث سے مدلل ثبوت اور مرزائیوں کے مایۂ