اب اس سے زیادہ اگر کسی صاحب کو سورہ نجم کی پوری تشریح دیکھنی منظور ہو تو خلاصہ التفاسیر میں یا اور تفسیروں میں دیکھ لے۔
بوجہ طوالت ان کا تحریر کرنا ترک کیا گیا کہ عاقلوں کو اتنا بھی بس ہے اور روضتہ الاصفیاء میں بھی ذکر معراج یوں ہے کہ مسلمانوں کو اعتقاد کرنا اس بات کا لازم ہے کہ معراج رسول اﷲ کا بیداری میں ہوا ہے اور علم ریاضی وفلسفہ والے جو آسمان کے پھٹنے اور ملنے کے قائل نہیں۔ معراج جسمی سے منکر ہیں اور حقیقت میں منکر معراج کاکافر ہے۔ معراج کا منکر قرآن مجید کا منکر ہے اور خواب وغیرہ میں معراج کا کہنا غلط ہے۔ اگر خواب مراد ہوتا تو کافر انکار نہ کرتے۔ غرض حسب اثبات بالا اور زیادہ ثبوت کی ضرورت نہیں۔
باقی ہفوات مرزا قادیانی قابل توجہ نہیں ہیں۔ جب کہ اس طریقہ ایجاد کی بیخ وبنیاد ہی اڑ گئی تو اب باقی ہی کیا رہا۔ مگر ہاں چند نصائح جو انہوں نے بطور وصیت نامہ اپنے خادمان کے لئے اپنی تصنیفات میں درج کئے ہیں۔ مشت نمونہ خرورارے۔ بملاحظہ ناظرین درج کئے جاتے ہیں۔ جو بدرجہ اولیٰ قابل غور ہیں:
وصیت نمبر1 خزائن ج۳ ص۶۴ مسیح اور اس عاجز کا مقام ایسا ہے کہ اس کو استعارہ کے طور پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی ابن اﷲ کہ سکتے ہیں۔
اقول
اے خادمان قادیانی! یہ تو بڑی دور کی سجھائی نہ بحیلہ استعارہ کیوں بیان کیا۔ گو سمجھنے والوں کے نزدیک تو مطلب وہی ہے۔ جو مقصود ہے مگر یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی بطور استعارہ گدھے کو گھوڑا کہے۔ تو چشم بینا اسے گدھا کہے گی۔ ہر گز گدھا و گھوڑا گو کسی قسم کی مشابہت رکھتا ہو۔ برابر نہیں ہوسکتا ہے۔ ہاں ان کے خادمان مثل نصاریٰ ویہود وغیر ابن اﷲ کہیں تو مضائقہ نہیں۔ کیونکہ یہودونصاریٰ بھی اصل بیٹا نہیں کہتے۔ بطور استعارہ ہی ان کا بھی گمان ہے۔ غرض اصلی ہو یا بطور استعارہ قرآن مجید میں اس کی مذمت موجود ہے۔
قولہ تعالیٰ: ’’قالت الیہود عزیر ابن اﷲ وقالت النصٰریٰ المسیح ابن اﷲ ذالک قولہم بافواہہم یضاھئون قولی الذین کفرو من قبل قاتلہم اﷲ انی یؤفکون (توبہ:۳۰)‘‘ {یہود نے کہا عزیر بیٹا اﷲ کا اور نصاریٰ نے کہامسیح بیٹا اﷲ کا یہ باتیں