شیطان ڈالے تو اس کے مزید اطمینان کے لئے اتنی اور گزارش ہے۔کان کا سیل نکلوا کر غور سے سنئے اﷲ تعالیٰ جابجا اپنے رسول کوں یوں خطاب فرماتا ہے۔ یعنی کہیں صاف نام سے محمد رسول اﷲﷺ اور کہیں ’’الذین یتبعون الرسول النبی الامی…الخ (اعراف:۱۵۷)‘‘ {جو پیروی کرتے ہیں رسول نبی امی کی… الخ}اور کہیں یوں فرمایا ’’قل یاایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً…الخ (اعراف:۱۵۸)‘‘ {کہہ دیجئے اے لوگو میں فرستادہ اﷲ کا ہوں طرف تم سب کے…الخ} اور کہیں اس طرح فرمایا ’’لا الہ الا ھو یحیی ویمیت فآٰمنو باﷲ ورسولہ النبی الامی… الخ (اعراف:۱۵۸)‘‘ {نہیں
اﷲ تعالیٰ نے جابجا صاف خاص نام اور کہیں لقب امی وغیرہ سے خطاب فرمایا کہ ان کے سوائے کسی کی پیروی نہ کرنا۔ مگر کنایتاً واشارتاً یہ کہیں نہ فرمایا کہ ایک مثیل قادیانی پنجابی جو فلاں صدی میں ہوگا۔ اس کی پیروی ضرور کرنا۔ بلکہ یوں فرمایا ہے۔ اگرچہ آیت کی شان نزول کسی خاص جانب کیوں نہ ہو۔ مگر عام امت کے لئے نمونہ ہدایت ہے۔
قولہ تعالیٰ: ’’وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اﷲ (انعام:۱۱۶) عن سبیلہ وہو اعلم بالمہتدین (انعام:۱۱۷)‘‘ {اور اگر اطاعت کرے تو اکثر کی زمین والوں سے بہکا دیں گے تجھے راہ سے اﷲ کی نہیں پیروی کرتے} مگر گمان کی اور نہیں وہ مگر اٹکل کرتے۔ بے شک رب تیرا وہی دانا تر ہے۔ اس کا کہ بہکا راہ سے اس کی اور وہ خوب جانتا ہے۔ راہ پانے والوں کو چونکہ اسرار الوہیت اور علوم نبوت نہایت دقیق اور لطیف ہیں۔ ہر عقل اس کے قابل نہ ہر دل اس کا محل۔
ارشاد ہوا۔ اس کی جستجو میں کمال احتیاط شرط ہے۔ تم (یعنی اے آدمیو)زمین کے رہنے والوں میں سے اکثروں کی پیروی کرو گے۔ تو تمہیں بہکا دیں گے ا س لئے کہ وہ خود بے علم ہیں۔ مجردگمان اور اٹکل پر حکم کرتے ہیں۔ تیرا رب راہ سے بہکے ہوئوں اور راہ پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ ظن وقیاس بھی دو ہیں۔ پہلا محض بے اصل یا مجرد رائے پر جیسے اہل بدعت اور اہل ضلال کے اصول یا رسم پرستوں کا معمول یہ عقلاً ونقلاً مردود ہے۔ دوم جو علمی مقدمات سے مستنبط اور کتاب وسنت کی شہادت سے مستفاد ہو وہ واجب العمل ہے۔
صاحبو! اب تو خواب غفلت سے جاگو اور ہوشیار ہوجائو۔ اس آیت کے مصداق کیوں