ہے ورنہ ان پر فرض نہیں ہے۔ چنانچہ سورہ مزمل میں اﷲ تعالیٰ کس طرح اپنے حبیب کو فرماتا ہے۔ مگر باوجود اس اعزاز کے وہ آزادی نہ حاصل ہوئی۔
قولہ تعالیٰ: ’’یاایہا المزمل قم الیل الا قلیلا نصفہ او انقص منہ قلیلا او زد علیہ ورتل القرآن ترتیلا… الخ (المزمل:۱تا۳)‘‘ {اے جھرمٹ مارنے والے کھڑا رہ رات کو مگر کم آدھی رات یا اس سے کم تھوڑا سا یا زیادہ کراس پر اور کھول کھول پڑھ قرآن کو صاف ہم آگے ڈالیں گے تجھ پر ایک بھاری بات… الخ}
غرض ایسے الو العزم انبیاء کی تو یہ کیفیت اور میاں قادیانی کی یہ وسعت آزادی کا بیان جو ہرگزکسی اہل فہم کی سمجھ میں نہ آوے گا۔
عقلاً و نقلاً کسی طرح پر ہو کیوں کر قابل توجہ ہے کہ یہ ’’الیوم اکملت لکم …الخ (مائدہ:۳)‘‘ وغیرہ کے مخالف ہے کہ اس آیہ سے تو دین محمدی کا کامل ہوجانا ثابت ہے۔
قادیانی کے دعوئوں اور ’’آیہ اعمل ما شئت وآیہ ہوالذی ارسل رسولہ بالہدی… الخ‘‘سے دین محمدی کا غیر مکمل وناقص رہنا نکلتا ہے۔ اب تو ناظرین کو یقین واضح ہوگیا ہوگا کہ قادیانی کے ثبوت وغیرہ تو اب قلابازیاں کھانے لگیں۔ اب بازی لے جانا ذرا کام رکھتا ہے۔
مخالفت قرآن وحدیث وانکار ثابت ہے۔ جو واقعی کفر ہے۔ اب رہی دیگر آیت ’’قل انما انا بشر مثلکم یوحی…الخ‘‘ (صفحہ ۵۱۱ براہین احمدیہ، تذکرہ ۸۹، اربعین نمبر۲ ص۸، خزائن ج۱۷ ص۳۵۴) اور نیز آیہ ’’وما ارسلناک الا رحمۃ العالمین (انبیائ:۱۰۷)‘‘ (تذکرہ۸۱)میں اپنی طرف منسوب کیا ہے حالانکہ رحمتہ للعالمین نبی ﷺ کا وصف خاص ہے۔ غرض اسی طرح اور بھی آیتیں ہیں۔ ہم کو بوجہ طول ان کے تحریری جواب مفصل کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف وہی ایک آیت کا جواب مذکورہ بالا ان سب آیتوں بارے میں عاقل کے سمجھے کو کافی ہے۔ پس زیادہ طول دینا فضول ہے۔
کیوں اے قادیانیو! اب بھی کچھ سمجھ میں آیا یا نہیں۔ یا اگر تعصب وغیرہ کو دور کرکے غور کروگے۔ تو انشاء اﷲ ضرور صراط مستقیم قدیم پر کامیاب ہوگئے اور اگر ’’ختم اﷲ علی قلوبہم…الخ‘‘ کی مصداق ہوگئے۔ تو البتہ عالم مجبوری ہے۔ خدا رحم فرمائے۔ آمین!
اے انصاف پسند یارو اگر اس اثبات واضح معروضہ متذکرہ بالا میں پھر کوئی وسوسہ