ضرور فوت ہو جائے گا۔ اس لئے میں نے یکم؍فروری سنہ حال کو بذریعہ خط شیخ صاحب کی خدمت شریف میں عرض کر دی کہ میں آپ کی خواب کا منکر ہوں اور میرے خیال میں آپ کی خواب منہاج شیطان کے ہے۔ کیونکہ خواب تین قسم کی ہوتی ہے۔ ایک رحمانی دوسری شیطانی۔ تیسری خیالی۔ یہ مسئلہ اتفاقی ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی بھی ازالہ خود میں لکھ چکے ہیں۔ خواب رحمانی وہ ہوتی ہے جو قرآن شریف اور حدیث مرفوع کے مطابق ہو اور شیطانی جو اس کے خلاف ہو اور خیالی وہ جو دن کو کرتا یا بنتا رہے۔ وہی رات کو دیکھے۔ غرضیکہ آپ کی خواب یا تو شیطانی ہے ورنہ خیالی ہونے میں تو ہرگز شک نہیں۔ شیطانی تو اس واسطے معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے لکھا ہے کہ مجھ کو آسمان دکھایا گیا اور آسمان سے تکیہ آنحضرت لگائے ہوئے اور مرزاقادیانی پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ شیطان کو عرش اور لوح محفوظ کی صورت بن جانے کی قدرت ہے۔ جس کے مشاہدہ سے آپ جیسا ملہم یہ گمان کرتا ہے کہ میں نے عرش اور لوح محفوظ سے علم حاصل کیاہے اور واقعہ میں وہ منہاج شیطان کے ہوتا ہے۔ اگر آپ کو خواب میں جتلایا جائے کہ شراب اور خنزیر اور باقی محرمات اشیاء تم پر حلال اور جائز ہوگئیں تو کیا خلق خدا آپ کی خواب پر ایمان لے آویں اور وہ قرآن شریف اور حدیث نبوی کو بالائے طاق رکھ دیں۔ نہیں صاحب یہ ہرگز نہیں ہونے کا اور خیالی اس واسطے کہ آپ کی نشست وبرخاست ہمیشہ مرزاقادیانی سے ہے اور آپ یہ سنتے رہے ہیں کہ مرزاقادیانی مسیح موعود ہیں اور اکثر اشتہاروں کے گھوڑے مرزاقادیانی کے مرید اڑاتے ہی رہتے ہیں اور آپ پڑھتے رہتے ہیں۔ شاید وہی خیال آپ کے دماغ میں سماگیا۔ رات کو دیکھا دن کو فوراً قادیان جاکر اشتہار چھپوایا کہ مجھ کو الہام ہوا مرزاقادیانی مسیح ہیں۔
لوجی! پنجابی مثل کا واقعہ ہونا بچشم خود دیکھنے میں آگیا۔ (ٹڈیاں نوں لگ گئے) اب الہاموں کا بازار گرم ہے۔ جس کا جی چاہے ملہم بن جائے۔ مگر یاد رکھیں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا اب تو زمانہ جہاندیدہ ہے۔ ایسے ملہموں کی شہادت کون دانا مان سکتا ہے۔ جس کی نظیر صحابہ سے ہرگز نہیں ملتی۔ میں نے مولوی نور احمد سکنہ لودنیت گل علاقہ تھانہ فتح گڑھ اور مولوی عبدالکریم سیالکوٹی حال قادیان اور حکیم نورالدین بھیروی حال قادیان اور جمال الدین کشمیری سکنہ سیکھوان وغیرہ وغیرہ سے بذریعہ خطوط استفسار کیا کہ اس طرح کے الہاموں کا وجود اگر صحابہ سے ثابت ہے تو جواب دو، ورنہ اپنے مریدوں کو متنبہ کر دو کہ آئندہ کے لئے اوراق سیاہ نہ کریں۔ مگر آج تک ان