۶… ’’حضرت مسیح مو عود کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارے اختلافات صرف وفات مسیح یا چند اور مسائل پر ہیں۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ غرض یہ کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ہر ایک چیز میں ان سے اختلاف ہے۔ ‘‘
(مرزا محمود احمد الفضل ۳؍جولائی ۱۹۳۱ئ)
۷… ’’غیر احمدیوں کا کفر بیّنات سے ثابت ہے اور کفار کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں۔‘‘ (روشن علی، محمد سرور قادیان الفضل ۷؍فروری ۱۹۲۱ئ)
۸… ’’وہ مرزا غلام احمد کو ایسا ہی نبی مانتا ہے۔ جیسا کہ حضرت محمدﷺ نبی تھے۔ اس لئے جو شخص مرزا صاحب کا انکار کرتا ہے۔ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس کے لئے دعائے استغفار جائز نہیں۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۲۱ئ)
۹… ’’جس طرح عیسائی بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا۔ اگرچہ وہ معصوم ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک غیر احمدی کے بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا۔‘‘
(ڈائری مرزا محمود خلیفہ قادیان الفضل مورخہ ۲۳؍ اکتوبر۱۹۳۴ئ)
۱۰… ’’میں اپنے مخالفوں کو فتح مکہ کا واقعہ یاد دلانا چاہتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہاری حکومت مجھے پکڑ سکتی ہے مار سکتی ہے۔ مگر میرے عقائد کو دبا نہیں سکتی۔ لیکن میرا عقیدہ فتح پانے والا اور بالکل وہی ہے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے بعد ابو جہل کے حامیوں نے رسول اﷲﷺ اور یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کا واقعہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ وقت آنے والا ہے جب یہ لوگ مجرموں کی حیثیت میں ہمارے سامنے پیش ہوں گے۔‘‘ (روزنامہ آفاق ۳۰؍ دسمبر ۱۹۵۱ئ)
فرنگی… سکھ ہندو اور مرزائیت
۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی کی ناکامی کے بعد سر زمین ہند پر انگریزوں کا تسلط تو ہوگیا۔ لیکن وہ مسلمانوں سے خائف رہے اور انہوں نے اپنے راج کے استحکام کا راز اس امر میں مضٗمر سمجھا کہ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے مفلوج اور بے دست وپاکر دیا جائے۔ انگریزوں کے نزدیک سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں میں جہاد کا دینی جذبہ تھا۔ یہ جذبہ جب بیدار ہوتا ہے تو مسلمان موت سے کھیلنے لگتا ہے۔ طویل سوچ بچار کے بعد فرنگی اصول کے مطابق (divide and rule) پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو۔ یعنی ملت اسلامیہ کی وحدت میں شگاف ڈالا جائے تجویز ہوا کہ کسی