خیر جو کچھ بھی ہوا اس انتخاب سے میری بھی خوشی کی بات ہے کہ یا تو بنگالی مولوی کا اپنے اشتہار واخبار میں مرزائی مذمت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں یا اب وقت نے ایسا مجبور کیا کہ خلیفۃ المسیح نے بھی پوربی ہی مولوی ہمارے وطنی بھائی کو تاکا اور ان کا دامن پکڑا۔ لیکن یہ انتخاب بھی شطرنج کی چال سے خالی نہیں۔ اس لئے کہ درحقیقت فیصلہ آسمانی کا جواب عقلاً محالات سے خیال کر کے حضرت خلیفۃ المسیح نے اپنے شیران نامور اور بہادران تجربہ کار کو بخیال بدنامی الگ ہی رہنے دیا کہ جو کچھ جواب ناصواب کا الزام ہو وہ بیچارے پوربی ہی مولوی کے سر رہنے دیا جائے اور آئندہ اخباروں میں لن ترانیوں کا بھی موقع باقی رہے کہ ایک پوربی مولوی نے جواب دیا ہے۔ قادیانی شیروں نے تھوڑا ہی جواب دیا۔ خیر جیسا کچھ بھی ہوا اس انتخاب پر حکیم خلیفۃ المسیح کے جو عین حکمت ہے میں بھی صاد کرتا ہوں۔
ہرچند مجھ کو پہلے ہی افواہاً معلوم ہوا ہے کہ ہمارے مولوی صاحب نے فیصلہ آسمانی کے جواب میں مہذبانہ طرز تقریر کو بدل کر اخباری لہجہ غیر مہذب کہنا چاہا ہے۔ کہاں تک یہ امر صحیح ہے۔ بغیر جواب دیکھے کوئی رائے قائم نہیں ہوسکتی۔
اب مسئلہ یہ زیر نظر ہے کہ آسمانی فیصلہ کا جواب تو امر محال ہی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس رسالہ میں تو صرف مرزاقادیانی کی ان ہی پیشین گوئیوں کا ذکر کیاگیا ہے جن کو مرزاقادیانی نے بہت ہی مہتم بالشان قرار دے کر اشتہاروں کے ذریعہ سے اپنی نبوت وصدق یا کذب کا معیار ٹھہرایا ہے (جو کسی طرح پوری نہ ہوئیں) اور مرزاقادیانی کا انتقال بھی ہوگیا۔
(مولانا محمد علی مونگیریؒ)حضرت مؤلف فیصلہ آسمانی مدظلہ العالی نے بڑی وضاحت اور دیانت سے صرف برادران اسلام کی خیرخواہی کی غرض سے ثابت کر دکھایا کہ جن پیشین گوئیوں کو مرزاقادیانی نے اپنی صداقت کا معیار ٹھہرایا تھا انہیں کو پیش نظر رکھ کر اور ان واقعات الہامی کے وقوع میں نہ آنے سے مرزاقادیانی خود اپنے صریح اقرار کے موافق صادق نہ ٹھہرے۔ بلکہ جیسا انہوں نے اقرار فرمایا تھا کہ اگر یہ سب امور مطابق الہام کے واقع نہ ہوں تو میں مفتری اور کذاب اور بد سے بدتر ہوں اور خدا کی طرف سے نہیں ہوں، اسے ظاہر کر کے دکھا دیا۔
حضرت مؤلف فیصلہ آسمانی ’’متع اﷲ المسلمین بطول بقأیہ‘‘ نے تو اپنی طرف سے مرزاقادیانی کے رد میں کچھ بھی نہیں لکھا بلکہ مرزاقادیانی ہی کے متفرق اقوال کو اکٹھا کر کے نہایت نیک نیتی ودیانت شعاری سے بغیر تحریف لفظی بہت صفائی سے بغرض خیرخواہی اسلام یاد دلا کر مرزائی حضرات کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اب بموجب اقرار خود مرزاقادیانی کے (اگر