جیسا عظیم الشان امام آپ کی وفات کا قائل ہے اور مسلمانوں کو حکم نہیں ہے کہ جب تنازعہ ہو تو اﷲ اور اس کے رسول یعنی قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرو؟
الجواب… بیشک یہ سچ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات علی الصلیب کے بارے میں مسیحی حضرات کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب دئیے گئے اور تین دن تک مرے رہے اور پھر زندہ کرکے اٹھائے گئے، جیسا کہ انا جیل مروجہ میں ہے اور ایک گروہ کا یہ مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ تو یہود کے ہاتھ آئے اور نہ صلیب دئیے گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ اور انہیں کا نزول اصالتاً قرب قیامت میں ہوگا۔ جیسا کہ انجیل برنباس میں ہے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوکر پھر زندہ ہوکر نہیں اٹھائے گئے اور کشمیر میں مدفون ہیں۔ امام مالکؒ کا بھی یہی مذہب ہے کہ فوت ہوکر پھر زندہ کئے گئے اور آسمان پر اٹھالئے گئے۔ یہ امام مالکؒ پر افتراء ہے کہ وہ وفات مسیح کے قائل تھے اور اصالتاً نزول کے منکر تھے۔ کوئی ثبوت ہے تو پیش کرو کہ امام مالکؒ مثیل مسیح کے نزول کے قائل تھے اور فرماتے تھے کہ کوئی مثیل مسیح نزول کرے گا اگر کوئی ثبوت ہے تو آپ بتاویں۔
ہم کہتے ہیں کہ امام مالکؒ کا بھی یہی مذہب ہے چنانچہ تمام مالکی مذہب کے امام اور مجتہد اصالتاً نزول کے قائل ہیں اور اصالتاً نزول بغیر حیات مسیح کے نہیں ہوسکتا۔ پس امام مالکؒ مسیح کی تین دن کی موت کے قائل تھے۔ پس اجماع امت اسی پر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تا نزول زندہ ہیں اور خدا تعالیٰ کو اختیار ہے کہ جس کو جب تک چاہے زندہ رکھے۔ حدیث میں کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بیل کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ جس قدر بال تیرے ہاتھ کے نیچے آئیں گے۔ اسی قدر تم کو عمر دراز دوں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر کیا ہوگا؟ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ موت، تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی موت آجائے۔ (مشکوٰۃ ذکر الانبیائ)
آپ (مرزائی صاحبان) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی درازی عمر سے کیوںک گھبراتے ہیں۔ وہ قادر مطلق ’’ علیٰ کل شئی قدیر‘‘ اس پر قادر ہے کہ جس کو جس قدر عمر دینا چاہے دے سکتا ہے۔ عوج بن عنق کی عمر تین ہزار سال کے قریب تھی۔ (مطلع العلوم ص۳۰۸ مطبوعہ نولکشور)
وفات عیسیٰ علیہ السلام میں اختلاف صرف اس بات کا ہے کہ تین دن مرا رہا یا سات ساعت مرا رہا یا تین ساعت مرا رہا۔ مگر پھر زندہ ہوکر آسمان پر صعود کر گیا۔ صعود کرنے اور تانزول