تغیر یا تبدیلی پیدا کرے یا اس کے بعض حصہ کو مانے اور بعض سے صاف انکار کر دے۔
دوسری جگہ اس طرح فرمایا گیا ہے۔ ’’تلک حدود اﷲ ومن یتعد حدود اﷲ فاولئک ہم الظالمون‘‘ یہ خداتعالیٰ کے مقرر کردہ ضابطے اور اصول ہیں۔ اﷲتعالیٰ کے فیصلوں سے تجاوز یا انکار کرنے والا ظالم اور بددین ہے۔ ایک اور آیت میں ہے۔ ’’ما اتاکم الرسول فخذوہ وما نہا کم عنہ فانتہوا‘‘ اور خدا کا رسول جس کام کے کرنے کا حکم فرمائے۔ اس کو بجالاؤ اور جس چیز سے روکے، اس سے رک جاؤ۔ یعنی شریعت کے دونوں حصوں امورات اور منہیات، حلال وحرام یا جائز وناجائز کا ماننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جب دنیا کے کسی قانون کو تسلیم
کرنے کے لئے اس کی تمام دفعات کا ماننا ضروری ہے۔ جیسا کہ ہم دور حاضر میں دیکھ رہے ہیں کہ ایک شخص تعزیرات کی سینکڑوں دفعات میں سے صرف قانون نمک کی خلاف ورزی کرنے سے حکومت کا باغی کہلایا جاتا ہے اور اس کی طرف سے قانون کا احترام باقی رکھنے کے لئے اس کو قید وبند کی سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسلام جو اصولی مذہب ہے اور چند قوانین اور ضابطوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ اس کے ہر دفعہ اور قاعدے پر ایمان لانا اور اس کو صدق دل سے تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے اور کس لئے اسلام کے مجموعہ قوانین میں سے کسی ایک ضابطے اور قاعدے کا انکار کرنے والا خدا اور اس کے رسول کا باغی اور نافرمان نہیں سمجھا جاتا اور کیوں اسلام کی عزت اور اس کا احترام باقی رکھنے کے لئے ایسے شخص کو سزا نہیں دی جاتی۔ غرض جس طرح توحید اور نبوت کے اقرار کرنے سے ضمنی طور پر تمام شریعت کا اقرار سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح شریعت محمدی کے کسی قطعی اور یقینی فیصلہ سے جس کو ہر آدمی مذہبی مسئلہ اور اسلام کا ایک حکم سمجھتا ہے انکار کرنا۔ خدا اور رسول سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے یہی معنی ہیں کہ ان کی تعلیم اور فیصلوں کو صحیح اور درست تسلیم کرتے ہوئے بصورت انکار کبھی ان کی مخالفت نہ کرے۔
اور جس شخص نے کسی ایسے فیصلے کے متعلق جس کا خدا اور رسول کی طرف سے ہونا یقینی امر ہے۔ انکار کیا یا اس کو بدل کر دوسرے رنگ میں پیش کرنا چاہا۔ ایسا آدمی یقینا خدا اور اس کے رسول کا کھلا ہوا دشمن اور ان کی تعلیم کا صریح مخالف سمجھا جائے گا۔
اس لئے یہ خیال کرنا کہ توحید اور نبوت کے اقرار کرنے یا قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز