M
نحمدہ ونصلے علیٰ رسولہ الکریم!
اس زمانہ میں مسلمانوں کی بدقسمتی یا مذہبی ناواقفیت کی وجہ سے لوگوں کے دماغوں میں یہ خیال کسی قدر راسخ ہوچلا ہے کہ جو شخص زبان سے ایک دفعہ کلمہ شہادت جاری کر دے۔ یا قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے۔ وہ ایسا پختہ اور راسخ العقیدہ مسلمان بن جاتا ہے کہ اسلامی تعلیم اور مذہبی عقائد کی کھلم کھلا مخالفت اور انکار کرنے کے باوجود بھی اس کے ایمان میں کسی قسم کا خلل یا فتور واقع نہیں ہوتا۔ اس خیال کی تائید میں بعض غلط فہمیوں کا شکار ہوکر اہل قبلہ کی عدم تکفیر والی حدیث پیش کر دی جاتی ہے اور کبھی اس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ’’ولا تقولوا لمن القیٰ الیکم السلٰم لست مؤمنا‘‘ یعنی جو شخص تم سے السلام علیکم کہتا ہے۔ اس کو شبہ کی وجہ سے کافر نہ کہو۔
اس خیال کی وجہ سے بعض ناواقف لوگوں کی ذہنیت اس درجہ بگڑ گئی ہے کہ اگر کوئی شخص اس موقعہ پر مذہبی تعلیم اور اسلامی روایات سے متأثر ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو وہ ان کی نظر میں تنگ دل، مذہبی دیوانہ، ناعاقبت اندیش، اسلامی اخوت کا دشمن، نظام ملی کا مخالف سمجھا جاتا ہے اور بعض تو اس کی بات سننا اور اس کی کسی تحریر کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ ایسے دوستوں کی خدمت میں باادب التماس ہے کہ وہ حق اور انصاف کو دل میں رکھتے ہوئے ہماری معروضات پر بغور توجہ فرماویں اور جو بات سچی ہو اس کو اختیار کریں۔
اس بات سے کس کو انکار ہوسکتا ہے کہ اسلام دنیا میں ایک اصولی مذہب ہے۔ دیگر مذاہب کی طرح انسانی خیالات اور قومی یا ملکی رسومات کے ساتھ ساتھ نہیں چلتا۔ اس کے فیصلے اٹل اور اس کے ضابطے ہر قسم کے تغیرات سے ہمیشہ کے لئے محظوظ ہیں۔ اس کے ہر حکم کو تسلیم کرنا اور اس کو سچے دل سے ماننا ہی ایمان ہے۔ ان میں سے کسی فیصلے کو بدل دینے اور بعض کو ماننے یا بعض سے انکار کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’ماکان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضی اﷲ ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرۃ‘‘ کسی مرد مسلمان یا عورت مسلمہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ جس حکم کے متعلق خداتعالیٰ یا اس کا رسول کوئی فیصلہ سنائے وہ اس میں کسی قسم کا