Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012

اكستان

46 - 64
اَور سر کا بال سے خالی حصہ دھوپ میں چمک رہا تھا، سواری پر پائے دان بھی نہ تھا، دونوں پیر کجاوے کے دونوں جانب لٹکے ہوئے تھے، کجاوے پر جو چادر تھی وہ موٹی اُون کی تھی، جب آپ سواری سے اُترتے تو یہی چادر بستر کا کام دیتی تھی۔ آپ کا تھیلا ایک چادر تھی جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، جب آپ اُترتے تو یہی تھیلا آپ کا تکیہ بن جاتا تھا۔ آپ کے بدن پر ایک لٹھے کا کرتا تھا جو کثرتِ استعمال سے گھس کر ایک جانب سے پھٹ گیا تھا، اِسی حالت میں آپ نے شہر جابیہ کے چودھری کو حاضر ہونے کا حکم دیا اَور کہاکہ میرا یہ کرتا دھو ڈالو اَور جو حصہ پھٹا ہوا ہے اُسے سی دیا جائے اَور مجھے اپنا ایک کرتا عاریت پر دے دو۔ چنانچہ کپڑا دُھلنے تک آپ نے دُوسرا کرتا استعمال کیا اَور جب اپنا کرتا سوکھ گیا تو پھر اُسے ہی پہن لیا، اِتنے میں اُس بستی کاسردار (جلومس) آگیا، اُس نے آپ کو اِس حال میں دیکھا تو کہا کہ آپ عرب کے بادشاہ ہیں اَور اِس علاقہ میںاُونٹ پر سواری کارواج نہیں ہے، کیا اچھا ہو کہ آپ کوئی عمدہ لباس پہنیں اَور خچر پر سواری کریں تاکہ رُومیوں کے اُوپر آپ کی دھاک بیٹھ سکے۔ یہ سن کر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے نہایت اِستغناء اَور بے تکلفی کے ساتھ جواب دیا کہ ''ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اِسلام کے ذریعہ عزت دی ہے لہٰذا ہم اللہ کے علاوہ کسی سے عزت کے طالب نہیںہیں۔'' (حیاة الصحابہ ٣٨٨٣)
غور فرمائیے! کیا اِس سادگی سے سیّدنا حضرت عمر   رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی فرق آگیا؟ نہیں ہرگز نہیں، بلکہ اُن کا درجہ دُنیا والوں کی نظر میںاَور بلند ہوگیا کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جسے دُنیا کے جواہر کی چمک دمک خیرہ کرسکے بلکہ یہ وہ ذات ہے جس کی نظر میں ساری دُنیا کی زیبائش وآرائش ٹھیکروں کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اِسی سادگی نے قیصر وکسریٰ کے کنگوروں کو ہلاکر رکھ دیا اَور آپ کارعب عالمِ کفر پر ایسا قائم ہوا کہ بڑے بڑے کروفر والے لوگ آپ کا نام سن کر تھرا کر رہ گئے اَور اِسلام کا غلغلہ چار دَانگ ِعالم میں پھیل گیا۔ 
ایک طرف اَمیر المؤمنین سیّدنا فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ کا یہ کردار ہے دُوسری طرف آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہر شخص غیروں کے سامنے مرعوب ہوکر بچھا جارہا ہے اَور غیروں کو خوش کرنے کے لیے اپنا تشخص اَور اِمتیاز تک چھوڑنے کو تیار ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں عمل کا نمونہ اُسوۂ نبوت اَور اُسوۂ صحابہ ث کے بجائے اپنے کھلے ہوئے دُشمنوں کے طور طریق کو بنالیا گیا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ جب ہم اِسلام کے بجائے دُوسروں
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 حرف آغاز 3 1
3 درس حدیث 5 1
4 فتح ِمکہ کے بعد مہاجرین کو مکہ میں سکونت کی اِجازت نہ ہونے کی حکمت : 7 3
5 ''مظلومیت'' مہاجرین کا اِعزاز : 8 3
6 آپ ۖ کو مہاجر کی مکہ میں وفات کا دُکھ : 8 3
7 اَنبیائے کرام سے منسوب کسی چیز کی تحقیر پر کفر کا اَندیشہ ہوتا ہے : 9 3
8 بعض تاجروں کا رونا : 10 3
9 پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے اِقدامات 11 1
10 حضرت اَقدس کی طرف سے جوابی مکتوب 12 9
11 پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے اِقدامات، مشکلات اَور اُن کاحل 13 9
12 نظام اِسلامی بروئے کار لانے کے لیے دو مؤثر فارمولے 14 9
13 (١) عدلیہ کی تبدیلی : 15 9
14 جدید مسائل کا حل : 16 9
15 (٢) بحالی اِسلامی جمہوریت : 17 9
16 اَنفَاسِ قدسیہ 18 1
17 قطب ِ عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدصاحب مدنی کی خصوصیات 18 16
18 اِخلاص وللہیت : 18 16
19 پردہ کے اَحکام 23 1
20 پردہ کے وجوب اَور ثبوت کے شرعی دَلائل : 23 19
21 نگاہ کی حفاظت کی ضرورت : 24 19
22 سیرت خلفائے راشدین 26 1
23 مُقدمہ 26 22
24 مروجہ محفل ِمیلاد 33 1
25 اہل سنت والجماعت کے معنٰی و مفہوم : 37 24
26 بدعت کی حقیقت : 37 24
27 بدعت کتنی بُری چیز ہے؟ 38 24
28 حضور ۖ ہمارے لیے ایک کامل و اَکمل نمونہ ہیں : 40 24
29 نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کا ذکر ِمبارک اَور درُود و سلام : 41 24
30 صحابہ کی زِندگی اَور ہمارا عمل 43 1
31 حضرات ِصحابہث کی قابلِ تقلید اِمتیازی صفات 43 30
32 (٣) حضراتِ صحابہ ث کی سادگی وبے تکلفی : 43 30
33 اَمیر المؤمنین صکا سرکاری وظیفہ : 44 30
34 تکلفات سے بچنے کی تلقین : 45 30
35 ہماری عزت تو اِسلام سے ہے : 45 30
36 وفیات 47 1
37 ماہِ صفرکے اَحکام اَور جاہلانہ خیالات 48 1
38 ماہِ صفر کا ''صفر'' نام رکھنے کی وجہ : 48 37
39 ماہِ صفر کے ساتھ ''مظفَّر''لگانے کی وجہ : 48 37
40 ماہِ صفر کے متعلق نحوست کا عقیدہ اَور اُس کی تردید : 49 37
41 ماہِ صفر سے متعلق بعض روایات کا تحقیقی جائزہ : 51 37
42 ماہِ صفر کی آخری بدھ کی شرعی حیثیت اَوراُس سے متعلق بدعات : 52 37
43 مُلّا عبد اللہ صاحب سیالکوٹی 56 1
44 اِبتدائی حالات : 56 43
45 مُلا عبد الحکیم صاحب سیالکوٹی کی جانشینی : 57 43
46 اَورنگزیب سے تعلقات : 57 43
47 اِستغنائ: 58 43
48 وفات : 59 43
49 کنیت : 60 43
50 مُلا عبداللہ صاحب کے شاگرد : 60 43
51 تصانیف: 61 43
52 مُلا صاحب کے جانشین : 62 43
53 اَخبار الجامعہ 63 1
Flag Counter