ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
اَور سر کا بال سے خالی حصہ دھوپ میں چمک رہا تھا، سواری پر پائے دان بھی نہ تھا، دونوں پیر کجاوے کے دونوں جانب لٹکے ہوئے تھے، کجاوے پر جو چادر تھی وہ موٹی اُون کی تھی، جب آپ سواری سے اُترتے تو یہی چادر بستر کا کام دیتی تھی۔ آپ کا تھیلا ایک چادر تھی جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، جب آپ اُترتے تو یہی تھیلا آپ کا تکیہ بن جاتا تھا۔ آپ کے بدن پر ایک لٹھے کا کرتا تھا جو کثرتِ استعمال سے گھس کر ایک جانب سے پھٹ گیا تھا، اِسی حالت میں آپ نے شہر جابیہ کے چودھری کو حاضر ہونے کا حکم دیا اَور کہاکہ میرا یہ کرتا دھو ڈالو اَور جو حصہ پھٹا ہوا ہے اُسے سی دیا جائے اَور مجھے اپنا ایک کرتا عاریت پر دے دو۔ چنانچہ کپڑا دُھلنے تک آپ نے دُوسرا کرتا استعمال کیا اَور جب اپنا کرتا سوکھ گیا تو پھر اُسے ہی پہن لیا، اِتنے میں اُس بستی کاسردار (جلومس) آگیا، اُس نے آپ کو اِس حال میں دیکھا تو کہا کہ آپ عرب کے بادشاہ ہیں اَور اِس علاقہ میںاُونٹ پر سواری کارواج نہیں ہے، کیا اچھا ہو کہ آپ کوئی عمدہ لباس پہنیں اَور خچر پر سواری کریں تاکہ رُومیوں کے اُوپر آپ کی دھاک بیٹھ سکے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہایت اِستغناء اَور بے تکلفی کے ساتھ جواب دیا کہ ''ہم وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اِسلام کے ذریعہ عزت دی ہے لہٰذا ہم اللہ کے علاوہ کسی سے عزت کے طالب نہیںہیں۔'' (حیاة الصحابہ ٣٨٨٣) غور فرمائیے! کیا اِس سادگی سے سیّدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی فرق آگیا؟ نہیں ہرگز نہیں، بلکہ اُن کا درجہ دُنیا والوں کی نظر میںاَور بلند ہوگیا کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جسے دُنیا کے جواہر کی چمک دمک خیرہ کرسکے بلکہ یہ وہ ذات ہے جس کی نظر میں ساری دُنیا کی زیبائش وآرائش ٹھیکروں کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اِسی سادگی نے قیصر وکسریٰ کے کنگوروں کو ہلاکر رکھ دیا اَور آپ کارعب عالمِ کفر پر ایسا قائم ہوا کہ بڑے بڑے کروفر والے لوگ آپ کا نام سن کر تھرا کر رہ گئے اَور اِسلام کا غلغلہ چار دَانگ ِعالم میں پھیل گیا۔ ایک طرف اَمیر المؤمنین سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ کردار ہے دُوسری طرف آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہر شخص غیروں کے سامنے مرعوب ہوکر بچھا جارہا ہے اَور غیروں کو خوش کرنے کے لیے اپنا تشخص اَور اِمتیاز تک چھوڑنے کو تیار ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں عمل کا نمونہ اُسوۂ نبوت اَور اُسوۂ صحابہ ث کے بجائے اپنے کھلے ہوئے دُشمنوں کے طور طریق کو بنالیا گیا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ جب ہم اِسلام کے بجائے دُوسروں