ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
کوئٹہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اِس طالب علم کے پاس اِتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ فوری طور پر والد کے جنازہ میں کوئٹہ بلوچستان پہنچ جاتا کیونکہ وہاں روزانہ جہاز نہیں جاتا اَور اَگر جاتا بھی ہو تو اُس کے کرائے اِتنے زیادہ کردیے گئے ہیں کہ اُن کاتحمل ہر کوئی نہیں کر سکتا، ریل کے حالات کسی سے مخفی نہیں ہیں ،سڑک کے راستوں پر ڈاکوؤں کا راج ہے اَور کم اَزکم ڈھائی سے تین دِن لگ جاتے ہیں................. یہ تو راستے کی مجبوریاں ہوئیں ۔ مگر مدرسہ کے اَندر رہتے ہوئے اپنے ہم وطنوںاَور ہم جماعتوں کے ساتھ مل کر اُس نے سوگ کی تین روزہ مجلس تو کجا یک روزہ مجلس بھی منعقد نہ کی بلکہ بخاری شریف اَور حدیث کے دیگر اَسباق کو ترجیح دے کر اپنے ہم عصر طلباء کے لیے علم کی قدر دَانی کی بہت اعلیٰ مثال قائم کر کے دِکھادی ۔ قرآن و حدیث کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اُس کو وطن سے بہت دُور صبرو اِطمینان کی ایسی چادر اُڑھا دِی جو شاید وہاں پر موجود سوگواروں کو بھی حاصل نہ ہوئی ہو۔ کون ہے ایسا کہ جس کو ماں باپ کی جدائی کادُکھ نہ ہوتا ہو مگر دُکھ جتنا بھی بڑھ جائے جانے والے کو واپس نہیں لاسکتا۔ کائنات میں کوئی آرہاہے کوئی جا رہا ہے اللہ تعالیٰ کی قوت ِقہریہ اَور مخلوق کی بے اِختیاری کا ہر وقت مظاہرہ ہو رہا ہے۔ رُجوع اِلی اللہ سے بڑھ کر کوئی چیزنہیں جس کو یہ نعمت نصیب ہوجائے وہی خوش بخت اَور بامراد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذات کی طرف رُجوع کی نعمت سے نوازیں، آمین۔