ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
راحت و آرام کا سامان موجود ہے لیکن ایک کرب اَور بے چینی کا شکار ہوں ۔بیوی کے پاس موبائل ہے اَور وہ اُس کے اِستعمال کی عادی ہے ایک مرتبہ اُس کا نمبر محلہ کے ایک نوجون سے مل گیا اُس سے تعلقات ہو گئے اَور نوبت زِنا تک پہنچی ہوئی ہے حالات اِس قدر بگڑ چکے ہیں کہ مجھ سے سنبھالے نہیں سنبھلتے،بتائیے کیا کروں؟ شاہدرہ ہی کا یہ قصہ سننے میں آیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر بیوی کی ماں(سگی ساس) سے شادی کرلی۔ اَور یہ واقعہ تو سب ہی کو معلوم ہے کہ کینیڈا سے دو بچیاں سگے چچا کے پاس کچھ دِن کے لیے پاکستان آئیں ،سگا چچا اُن کی عزتوں سے کھیلتا رہا۔ اِن جیسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو رَوز اِس دھرتی پر پیش آ رہے ہیں پھر اِس بے حیائی عریانی فحاشی اَور زِناکاری کے نتیجے میں خدا کا قہر نازل نہ ہو تو کیا ہو؟پھر اگر وبائی اَمراض ،طاعون،ہیضہ ،ڈینگی،اَیڈز اَور اِن جیسے دیگراَمراض جن کے سمجھنے سے بھی ڈاکٹر عاجز ہیں ملک میں پھیل جائیں تو اللہ سے کیا شکوہ کیا گلہ! اِن اَمراض کے موجود ہونے کا جو سبب اللہ کے سچے پیغمبر ۖ نے بتایا ہے یعنی بے حیائی اَور زِناکاری کا پھیلنا ،جب تک وہ ختم نہ ہوگا نئے نئے اَمراض کا آنا کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اِن حالات کا تقاضا ہے کہ پوری قوم اللہ کی طرف رجوع کرے توبہ و اِستغفار کا اہتمام کرے اَور جس طرح بھی ممکن ہو برائی کے اِن اَسباب کو ختم کرنے کی کوشش اَور جدوجہد کرے۔اُن دُعاؤں کا اہتمام بھی کیا جائے جو حضور ۖ نے اَمراض سے بچنے کے لیے تعلیم فرمائی ہیں،وَمَا عَلَیْنَا اِلَّاالْبَلَاغْ۔