ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
اُن کے اِزالہ کی کوشش کی جائے تو اِن حالات سے نجات مل سکتی ہے۔ ہمارا حال تو اُن لوگوں کا سا ہے جو کسی جگہ آگ لگی دیکھ کر آگ آگ کا شور مچاتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر اُس کے بجھانے کی کوشش نہیں کرتے ایسی صورت میں آگ کیسے ختم ہوسکتی ہے؟ ہمیں قوم سے گلہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے اَمراض کی نشاندہی تو کرتی ہے کہ یہ ہوگیا وہ ہوگیا لیکن اُن کے اَسباب کی طرف توجہ اَور دِھیان نہیں دیتی اَور نہ ہی اُن کے اِزالہ کی کوئی کوشش کرتی ہے۔ کتاب و سنت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا میں آنیوالی آفات و بلیات اَور مصائب و تکالیف کا سبب خود اُن کے اپنے اَعمال ہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَاکَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔(سُورۂ رُوم آیت ٤١) ''خشکی اَور تری (یعنی تمام دُنیا) میں لوگوں کے (بُرے) اَعمال کے سبب بلائیں (مثلاً قحط ،وباء ،طوفان) پھیل رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اَعمال کا مزہ اُن کو چکھادے تاکہ وہ (اپنے اِن اعمال سے) باز آجائیں۔'' سب کو معلوم ہے کہ ہم کس قدر دین سے نہ صرف دُور بلکہ دین بیزار بنے ہوئے ہیں، اللہ اَور اللہ کے رسول ۖ سے کس قدر بغاوت اَور سرکشی کا شکار ہیں اَور کس قدر اللہ اَور اللہ کے رسول ۖ کی نافرمانی اَور بدعملی میں مبتلا ہیں۔ سودی لین دین، رشوت خوری، زِناکاری، جھوٹ بولنا، دھوکا دینا، اَمانت میں خیانت، ایک دُوسرے کے ساتھ ظلم و زیادتی، نااِنصافی، بے اِیمانی، بے حیائی، فحاشی، عریانی اَور اِن کے علاوہ کون سے گناہ ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے۔ یہی وہ اَسباب ہیں جن کی وجہ سے ساری قوم مصائب و تکالیف کا شکار ہے۔ جب تک لوگ اِن اَسباب کا اِزالہ نہیں کریں گے اللہ اَور اللہ کے رسول ۖ سے بغاوت اَور اُن کی نافرمانی و بدعملی کو نہیں چھوڑیں گے اُس وقت تک کبھی بھی یہ حالات نہیں بدلیں گے۔ اِس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو ایک وہ اَحادیث بھی ذکر کردی جائیں جن سے آج کل کے پیش آمدہ حالات کا بخوبی تجزیہ اَور اِن اَمراض کے اَسباب کا پتہ چلتا ہے چنانچہ ایک حدیث ِ پاک میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :