ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
کاعربی متن ملاحظہ کریںتو دیکھیں گے کہ اِنگلش کا لفظ (Sex) کا کوئی عربی متبادل اِستعمال نہیں ہو ا، اَصل میںقرآن جوکچھ کہتاہے وہ یہ ہے کہ رحموںمیں کیا ہے ؟ اِس کا علم صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہے ۔ کافی مفسرین کو غلط فہمی ہوئی اَور اُنہوں نے اِس کا یہ معنٰی مراد لیاہے کہ اللہ ہی ماں کے رحم میں بچے کی جنس کوجانتا ہے، یہ درست نہیں۔ یہ آیت جنین کی جنس کی طرف اِشارہ نہیں کرتی بلکہ اِس کا اِشارہ اِس بات کی طرف ہے کہ ماں کے رحم میںموجود بچے کی فطرت کیسی ہو گی ؟ وہ کیا اپنے ماںباپ کے لیے باعث ِرحمت ہو گا یا عذاب......الخ ۔'' ( اِسلام پرچالیس اعتراضات ص١٣٠ اَز ڈاکٹر ذاکر نائیک ) ڈاکٹر صاحب نے یہاں پر سائنسی تحقیق سے مرعوب ہو کر اِس سے پیدا ہونے والے سرسری اعتراض سے بچنے کے لیے ، قرآن کی دُوسری آیت اَور صحابہ و تابعین سے منقول تفسیر کو پس ِپشت ڈالتے ہوئے ایک معروف معنٰی کااِنکار کر دیا اَور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید اَور اُن کی تغلیط کر ڈالی۔ ڈاکٹرصاحب نے جو معنٰی بیان کیاہے' ' ما '' موصولہ کے عموم میں آ سکتا ہے اَور بہت سے مفسرین نے ایک احتمال کے طور پرپہلے معنٰی کے ضمن میں اِس کا بھی ذکر کیا ہے لیکن دُوسرے معنٰی کا اِنکار کردینا قطعاً صحیح نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کی قلت ِتدبر اَور تفسیر میںصحابہ اَور تابعین کے اَقوال سے رُوگردانی کی واضح دلیل ہے ، اِس لیے کہ ڈاکٹر صاحب نے جس معنٰی کی نفی کی ہے، اُسی کی طرف سورہ رعدکی آیت اَللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ أُنْثٰی وَ مَا تَغِیْضُ الأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۔ (سُورہ الرعد:٨) یعنی اللہ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہے کہ جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اَور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے ، اِشارہ کر رہی ہے، نیز مشہور تابعی اَور تفسیر کے اِمام حضرت قتا دہ سے بھی یہی معنٰی مروی ہے ، چنانچہ حضرت فتادہ فرماتے ہیں : فَلَایَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ اَذَکَر اَمْ اُنْثٰی.....الخ ''یعنی رحم ِمادر میںنر ہے یا مادہ اِس کا قطعی علم سوائے خدا کے کسی اَور کو نہیں ۔'' اِسی طرح ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر (٦/٣٥٥) میں علامہ نسفی رحمہ اللہ نے تفسیر مدارک(٣/١١٦) میں اَور اِمام شوکانی رحمہ اللہ نے فتح القدیر(٥/٤٩٨) میں، مذکورہ آیت کا یہی معنٰی بیان فرمایا لیکن اکٹر صاحب