ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2011 |
اكستان |
|
حدیث میںہے : '' مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِرَأْےِہ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ '' (أخرجہ الترمذی : رقم :٢٧٧٦) ''یعنی جوآدمی محض اپنی عقل سے تفسیر کرے تو اگرچہ وہ اِتفاقاً درست معنٰی تک پہنچ جائے پھر بھی اُسے غلطی کرنے والا سمجھا جائے گا ۔'' ایک دُوسری روایت میں ہے :'' مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِرَأْےِہ فَلْےَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہ مِنَ النَّارِ '' ( أخرجہ الترمذی: ٥/١٩٩، رقم :٢٩٥١ ) اِسی لیے مفسر کے لیے بہت سی شرائط ہیں مثلاً قرآن کی تمام آیتوں پر نظر، ذخیرہ حدیث سے متعلق وسیع معلومات ،عربی زبان اَور اُس کے قواعد، نحو ، صرف اَور اِ شتقاق اَور فصاحت و بلاغت کا اچھا علم ہو وغیرہ ۔ جہاں تک ڈاکٹر صاحب کا تعلق ہے تو اُن کے اَندر مذکورہ شرائط میں سے ایک بھی شرط ضروری حد تک نہیںپائی جاتی ، نہ وہ عربی زبان اَور اُس کے قواعد سے کماحقہ واقف ہیں اَور نہ ذخیرہ حدیث پر گہری نظر ہے اَور نہ ہی فصاحت وبلاغت سے کوئی زیادہ واقفیت ہے ( ذیل کی مثالوں سے یہ باتیں واضح ہو جائیں گی ) جبکہ تفسیر میں گمراہی میں پڑنے کے جتنے اَسباب ہیں مثلاً حضور ۖ اَور صحابہ و تابعین سے منقول تفسیروں سے رُوگردانی ، زمانے کے اَفکار سے مرعوبیت اَور قرآنِ کریم کے موضوع کو غلط سمجھنا وغیرہ ڈاکٹر صاحب کے اَندر بدرجۂ اَتم موجود ہیں، اِسی لیے اُنہوں نے دَسیوں آیتوں کو اپنی ناواقفیت سے مشق ِستم بنایا ،ذیل میں چند نمونے ملاحظہ فرمائیں : (الف) آیت کریمہ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ کی تفسیر میںڈاکٹر صاحب کہتے ہیں : ''لوگ کہتے ہیں کہ لفظ '' قَوَّام '' کامعنی ایک درجہ اُوپر ہونے کے ہیں لیکن اَصل ''قَوَّام '' ''اِقَامَة '' سے نکلا ہے ۔''اِقَامَة'' کامطلب کھڑا ہونے کے ہیں لہٰذا ''اِقَامَة'' کا مطلب ہوا کہ ایک درجہ ذمے داری میں اُونچا ہے نہ کہ فضیلت میں۔'' (خطبات ذاکر نائیک ص٢٩٥: فرید بکڈپو ،دِلّی )