ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2011 |
اكستان |
|
دیکھنے کے بعد اِسلامی تعلیمات کی عظمت،شان و شوکت اَوراِجتماعی بندگی کا اَندازہوتا ہے یہاں کوئی شخص کمانڈر وحاکم نہیں اِس نظام کی تنظیم کا کوئی ناظم نہیں اَور کسی کو محکومیت کا اِحساس نہیںبلکہ تمام لوگ یکساں ہیں، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں، سبھی محترم ہیں، سبھی دُنیوی اِمتیازات سے کنارہ کشی اِختیار کیے ہوئے ہیں، کسی میں مال ودولت کی ہوس اَور سماجی عہدہ ومقام اَور دُنیاوی شان وشوکت کے حصول کی خواہش نہیں ،سب اپنے گناہوں کی معافی کے لیے آئے ہیں، سب غوروفکر میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر اُن کی فکر دُنیا کے سلسلے میں نہیں بلکہ اُن کی فکر کا محور آخرت ہے ۔ سب اپنے گناہوں پر نادِم ہو کر اِس یقین کے ساتھ آئے ہیں کہ اِس دَر کے علاوہ کوئی دَر نہیں، اِن کی آنکھوں سے توسیل ِاَشک رَواں ہے مگر وہ دِل سے یہ کہہ رہے ہیں : ''اے اللہ ! تورحمن ہے، ہم ہزار برے ہیں لیکن ہمارے گناہوں سے زیادہ وسیع تیری رحمت کی چادر ہے''۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ عدل پر اُتر آئے تو ہماری نجات ممکن نہیں ہے اِس لیے گھبراکر کہتے ہیں : ''مالک ! ہمیں آپ کا عدل نہیں آپ کا فضل چاہیے'' ۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری کوتاہیوں کا ذخیرہ اِتنا بڑا ہے کہ اگر حساب شروع ہوا تو بہر حال پکڑے جائیں گے اِس لیے پکار کر کہتے ہیں : '' مالک ! حساب نہ لیجئے، ہم حساب دینے کی ہمت کہاں سے لائیں ہم کو تو اپنے فضل وکرم سے حساب وکتاب کے بغیر معاف کرکے جنت دے دیجیے ''۔ ہرایک حاجی خدا وند ِقدوس کے دربار میں اِس یقین کے ساتھ حاضر ہوتا ہے کہ یہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا ہے اِس لیے ہم بھی بخشش کا پروانہ لے کر جائیں گے ،فضل ِاِلٰہی اَور رَحمت ِباری کی بارش ہم پر بھی ضرور ہوگی۔ اپنی عاجزی کا اِحساس ،اپنی کوتاہی کا اِعتراف ، اللہ کی رحمت پر اِعتماد اَور اِس کے ساتھ ''کچھ نہ کچھ لے کر ہی جائیں گے ''کا یقین ،پھر کیف ومستی وخود فراموشی اَور عشق ومحبت کے جذبات سے سرشار ہونا ، مچل مچل کر مانگنا ، لپٹ لپٹ کررونا، یہی وہ صدائیں اَور اَدائیں ہیں جو رحمت ِاِلٰہی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اَورہر حاجی اَپنا دامنِ مراد بھر لیتا ہے اَور معصوم ، صاف ستھر ا، دُھلا دُھلایا بڑی دولت لے کر لوٹتاہے۔