ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
موصوف کو '' قُلْ ھُوَاللّٰہْ '' پڑھنی آئے یا نہ آئے مگر فتوی خوب داغا، ظاہر ہے جس کی نظر میں اَمریکی کفار پاکستان کے خیر خواہ ہوں اَور اُن کی غلامی کرنے والے پکے مومن ہوں تو وہ ایسے ہی فتوے نہ داغیں گے تو پھر اَور کیا کریں گے۔ وزیر اعظم اَور وزیر داخلہ موجودہ حالات میں جوبیانات دے رہے ہیں وہ نہایت غیر ذمہ دارانہ ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اَمریکی اَور اِسرائیلی اَیجنڈے پر عمل کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں یہودو نصارٰی کے لیے ملک کے اَندر دُور تک کھلی جارحیت کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔ سانحہ ایبٹ آباد اَور اُس کے بعد ٢٣ مئی کو کراچی بیس پر ہونے والے واقعات نے پاکستان کی تینوں مسلح اَفواج کی ملکی دفاع سے متعلق صلاحیت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے اَور طویل مارشلاؤں کے برے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جمعیت علماء اِسلام کے نائب اَمیر دوم سنیٹر مولانا گل نصیب خان صاحب ٢١مئی کو ہمارے یہاں تشریف لائے ہوئے تھے اُنہوں نے بتلایا کہ '' سانحہ اَیبٹ آباد کے فورًابعد وہ اَور مولانا محمدخان صاحب شیرانی اَیبٹ آباد گئے اَور بلال ٹاؤن کے مکینوں سے ملاقاتیں کیں اہل محلہ نے بتلایاکہ جس شب یہ کارروائی ہونی تھی اُسی شب مغرب بعد پاکستانی فوج کے اَفسران نے آکر ہر گھر کے دروازے پر کھٹکا کیااَور ہمیں سختی سے ہدایت دی کہ آٹھ بجے کے بعد کوئی گھرسے مت نکلے رات کو اگر دھماکے اَور گولیاں چلیں تو آپ لوگ گھروں کے اَندر ہی رہیں اَور باہر ہرگز نہ نکلیں پھر رات کے آٹھ بجے کے بعد پورے علاقہ کا محاصرہ کر کے سیل کردیا گیا۔'' اہل ِعلاقہ کے اِن بیانات سے اَدنی سمجھ رکھنے والا اِنسان بھی یہ سمجھ جائے گا کہ یہ بہت بڑا مذاق ہے جس کو اَمریکی سر کار کی سرپرستی میں اَنجام دے کر اپنے ہی ملک کے خلاف کثیر المقاصد محاذ کھولے گئے ہیں۔ اِن تلخ حقائق کی روشنی میں قطع نظر اِس کے کہ اُسامہ بن لادن زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں اِتنی بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اِس پتلی تماشہ کے وقت شہادت یا گرفتاری بالکل نہیں ہوئی بلکہ اِن کا اُس وقت وہاں موجود ہونا بھی سفید جھوٹ دِکھائی دیتاہے۔