ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
سکونت اِختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا، فتح پوری میں مولانا قاری محمد میاں صاحب دہلوی (خطیب اُونچی مسجد، بلیماران دہلی) کا تقرر ہوگیا۔ جب قدرے سکون واِطمینان ہوا تو کراچی میں مدرسۂ تعلیم القرآن شریفیہ کا دَورِ ثانی کا دکھنی مسجد، پاکستان چوک کراچی سے آغاز کیا۔ یہ ١٣٦٨ھ / ١٩٤٩ء کا واقعہ ہے۔ دکھنی مسجد میں یہ مدرسہ ١٠ محرم الحرام ١٤١٠ھ / ١٣ اگست ١٩٨٩ء بیالیس سال تک رہا۔ جب دکھنی مسجد کی موجودہ تعمیر شروع ہوئی تو یہ مدرسہ پاکستان چوک ہی کے علاقے میں ایک مکان میں منتقل ہوگیا۔ اُس کے بعد مدرسہ کے لیے ایک مستقل جگہ خریدی گئی جس کا سنگ ِبنیاد حضرت شیخ الاسلام کے جانشین صادق مرشدی حضرت مولانا سیّد اَرشد صاحب مدنی اطال اللہ عمرہ (اُستاذ الحدیث دارُ العلوم دیوبند) کے دست ِمبارک سے ٨ شوال المکرم ١٤١٨ھ / ٦ فروری ١٩٩٨ء بروز جمعہ صبح دس بجے رکھا گیا، والحمد للہ! مدرسہ میں اِس وقت بچوں اَور بچیوں کے لیے تعلیم القرآن کے الگ الگ شعبے قائم ہیں۔ دو صد کی قریب طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں، اَللّٰہُمَّ زِدْ فَزِدْ۔ اس مدرسہ کے لیے عام چندہ نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی صاحب اَز خود حصہ لینا چاہیں تو اُن کی اِمداد سے اِنکار بھی نہیں کیا جاتا۔ اِس معاملے میں حضرت قاری صاحب کس درجے احتیاط فرماتے تھے؟ اِس کا اَندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت حافظ عبدالرحمن صاحب مدظلہم (تلمیذ حضرت خلیفہ منشی محمد عاقل دیوبندی، سابق اُستاذ شعبۂ فارسی دارُ العلوم دیوبند) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک صاحب کو حضرت قاری صاحب کے مدرسہ کی اِمداد کے لیے متوجہ کیا، مدرسہ کی عمارت ''قرآن منزل'' زیر تعمیر تھی، وہ صاحب ظہر کی نماز میں جامع مسجد سٹی اسٹیشن کراچی میں حضرت قاری صاحب سے ملے اَور ایک خطیر رقم پیش کی اَور کہا کہ یہ آپ کے مدرسہ کے لیے ہے اَور زکوٰة کی مد میں ہے۔ حضرت قاری صاحب نے وہ رقم یہ کہہ کر واپس کردی کہ ہمارے ہاں زکوٰة کی مد نہیں ہے۔ وہ صاحب واپس حافظ صاحب کے پاس گئے اَور کہنے لگے: کون سے مولوی صاحب کے پاس بھیج دیا، اُنہوں نے رقم یہ کہہ کر واپس کردی؟ حضرت حافظ صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ حضرت قاری صاحب نے پرانی تمام رسیدیں تلف کرائیں اَور نئی رسیدیں چھپوائیں، جس پر یہ عبارت درج کرائی گئی : ''ہمارے ہاں صدقات واجبہ اَور زکوٰة کی مد نہیں ہے''