ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
درمیانی عرصہ میں ٢٨ طلبا ء قرآن مجید مکمل پڑھ کر حافظ ہوئے، ناظرہ خوان اِس کے علاوہ ہیں۔ ١٩٤٧ء میں پورے ملک میں بالخصوص دہلی میں زندگی ایسی تہ وبالا ہوئی کہ سارا نظام بگڑ گیا اَور پچاسوں طلبا جو پڑھ رہے تھے اُن کا شیرازہ ایسا بکھرا کہ پھر اُن کو ایک نظام میں چلانا دُشوار ہوگیا، اُس وقت سے لے کر حضرت قاری صاحب کی وفات تک جنہوں نے مکمل قرآن آپ سے حفظ کیا اُنکی تعداد ٢٧٥ کے قریب ہے۔ اِن کے علاوہ مفسر قرآن حضرت مولانا سیّد اَخلاق حسین صاحب قاسمی (ہم عصر وہم سبق اَور اَوّلین شاگرد)، حضرت مولانا محمد سعید صاحب دہلوی (شیخ الحدیث مدرسۂ عبد الرب، دہلی)، حضرت مولانا قاضی نصیر الدین صاحب میرٹھی، حضرت مولانا محمد احمد صاحب قادری مدظلہ (رابطہ عالم اِسلامی، مکہ مکرمہ، ابن حضرت حکیم مختار حسن خاں صاحب دہلوی)، حضرت مولانا محمد صدیق صاحب مدظلہ (فاضل مدرسۂ مظاہرہ العلوم سہارنپور)، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد رفیع صاحب عثمانی مدظلہ، حضرت مولانا زبیر احمد صاحب صدیقی مدظلہ، حضرت مولانا لیاقت علی شاہ صاحب نقشبندی، حضرت مولانامفتی محمد اِسرار صاحب مدظلہ اَور مولانا محمد یوسف صاحب شمسی زاد مجدہ نے تجوید وقراء ت حضرت قاری صاحب سے پڑھی۔ تقسیم ملک کے وقت آپ حج کے سفر پر تھے۔ واپسی پر کراچی کی بندرگاہ پر اُترے۔ مسلم لیگ کے طرزِ سیاست اَور اُس کے ردّ عمل نے پنجاب سے لے کر دہلی، بہار اَور بنگال تک قیامت برپا کردی تھی۔ معلوم ہوا کہ پہاڑ گنج کے باسی کراچی آگئے۔ حالات کے اِسی ریلے میں حضرت قاری صاحب کے بھائی اَور والدہ محترمہ اَور دیگر بھی کراچی پہنچ چکے تھے۔ اَفراتفری کے اِس خلاء میں کسی کو قرار نہ تھا، حالات سے کوئی مطمئن نہ تھا، تقریباً ڈھائی سال اِسی عالم میں گزرے۔ اُس زمانے میں قاری صاحب نے کچھ عرصے تک تجارت بھی کی، کراچی سے مال لے جا کر دہلی اَور دہلی سے کراچی لا کر بیچا کرتے تھے اِس تجارت میں آپ کے ایک شاگرد جناب حافظ محمد دین پراچہ (مرحوم) شامل تھے۔ حضرت قاری صاحب ایک جمعہ کراچی اَور دُوسرا دہلی میں پڑھتے تھے۔ حافظ صاحب ٹھیا لگا کر مال بیچتے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد صاحب مدنی کی خواہش تھی کہ تقسیم ملک کے بعد مدرسۂ عالیہ فتح پوری دہلی میں تدریس کریں۔ اِس کے لیے ضروری ہدایات حضرت شیخ نے مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی کو دی تھیں لیکن حالات ایسے بگڑ چکے تھے کہ حضرت قاری صاحب کو کراچی کی