ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
ہمیں ائیر پورٹ سے حاصل کرنا تھی ،کار ینٹ والا آفس ائیر پورٹ کی نچلی منزل پر واقع ہے وہاں کئی مسافر قطار بنائے گاڑیوں کے حصول کی خاطر موجود تھے ہم نے بھی اپنی باری پر کاغذات دکھا کر وہاں سے گاڑی کی چابیاں حاصل کیں جو گاڑی ہمیں دی گئی وہ بالکل نئی تھی اُس کا کلاک صرف 160 کلو میٹر شو کر رہا تھا نئی چیز کا اپنا ہی مزہ ہے عربی کا مقولہ ہے کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذ ہر نئی چیز مزے دار ہوتی ہے۔ اسپین میں ڈرائیونگ دائیں ہاتھ اور اسٹرینگ بائیں ہاتھ سے جبکہ برطانیہ میں اِس کے بر عکس جو ہمارے لیے ایک مسئلہ تھا مگر اِس مسئلہ کو ہمارے قافلے کے امیر جناب مولوی آفتاب احمد صاحب نے کمال مہارت سے آسان کردیا اُنہوں نے کسی بھی موقع پر یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ برطانیہ میں گاڑی چلا رہے ہیں یااسپن میں۔ مالگا ائیر پورٹ سے نکل کر ہم جونہی شہر کی طرف بڑھے تو ایک لمحے ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے ہم اپنے ہی ملک میں داخل ہوگئے ہوں ،دیار ِ غیر میں اجنبیت کا عموماً جو احساس ہوتا ہے وہ با لکل نہیں تھا جوں جوں ہم آگے بڑھتے جا رہے تھے وُوں وُوں اُنسیت اور اپنا ئیت کا احساس ہوتا رہا، پاکستان کی طرح کی کوٹھیاں وہی طرزِتعمیر وہی طرز ِ رہائش دروازوں پر لوہے کے گیٹ اور گیٹ پر سر سبز پھولوں اور پھلوں سے لدی ہوئی بیلیں وہی ماحول کھلا آسمان بھر پور روشنی برطانیہ سے بالکل ہٹ کر ایک الگ تشخص جو مشرقی اور عرب ماحول سے زیادہ قریب ،کچھ ہی فاصلہ طے کر نے کے بعد ہمیں قرطبہ کے سائن ملنا شروع ہوگئے ،شہر کی خوبصورت اور گنجان آبادی ختم ہوئی تو ہمارے سامنے اَب ایک صاف ستھری ہائی وے تھی سڑک کے ساتھ پہاڑوں کاایک لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے چائے کی طلب ہوئی تو دوستوں نے رائے دی کہ اِس شاہراہ پر آنے والے کسی ہوٹل پر گاڑی روک کر چائے پی جائے۔چائے سفر میں ایک ٹانِک کا کام دیتی ہے اور سُستی کا ہلی کو دُور کر کے آدمی کو تازہ دم کر دیتی ہے۔ کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمیں ایک ریسٹورنٹ نظر آیا ہم نے گاڑی روک دی یہ ایک عرب طرز ِ تعمیر کا ریسٹورنٹ تھا کاؤنٹر پر پہنچ کر ہم نے انگلش میں چائے کا مطالبہ کیا تو کاؤنٹر پر موجود دونوں آدمی ہماری بات سمجھنے سے قاصر تھے کہ ہم اُن سے کیا چیز طلب کر رہے ہیں بڑی مشکل سے ہم اُن کو اِشاروں کنایوں میں یہ سمجھا سکے کہ ہم چائے مانگ رہے ہیں ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ وہ