ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ( مرتب : حضرت مولانا ابوالحسن صاحب بارہ بنکوی ) .٭ اہلِ محشر کی تین جماعتیں سابقین، اصحابِ یمین، اصحابِ شمال قرار دی گئیں۔ سابقین سب سے اعلیٰ اَور اصحابِ یمین متوسط اَور اصحابِ شمال سب سے ادنیٰ۔ اوّل و دوم ناجی ہیں اَور سوم غیر ناجی پھر اَوّلین و آخرین میں سے فریق ِ اعلیٰ و اَوسط کی تعداد بہت زیادہ بلکہ تقریبًا برابر ہوگی بخلاف اصحابِ یمین کے کہ اُن میں اوّلین کی بہت زیادہ اَور آخرین کی کم ہوگی۔ ظاہر اَور اقرب یہی ہے کہ یہ تفصیل اُمت ِ محمدیہ کی ہے اگرچہ مفسرین کی ایک جماعت اِس کی قائل ہے کہ یہ تفصیل تمام عالم ِ انسانی کی ہے بصورت اِرادہ اُمت ِ محمدیہ تنقیص اُمت ِ محمدیہ کا خیال یا تو اِس طرح دفع ہوسکتا ہے کہ متاخرین کو مشرف فرماکر سابقین کا درجہ زیادہ عطا کردیا گیا ہے جیساکہ اِرشاد کیا گیا ہے کہ متاخرین اگر ''عُشْرَ مَا اُمِرُوْا بِہ'' (یعنی کل احکام ِ خداوندی کے دسویں حصّہ) کی بھی تعمیل کرتے رہیں گے تو ناجی ہوجائیں گے اَور متقدمین کو یہ شرف نہ حاصل ہوگا کیونکہ اُن کو ماحول کی سعادت سے نوازا گیا تھا اَور اِسی وجہ سے ان کو ''عشر ما امروا بہ'' کے ترک پر مواخذ ہونا پڑا اَور یا یہ کہا جائے کہ زمانہائے آخرہ میں غلبۂ شرک کی وجہ سے اصحابِ یمین کم پیدا ہوئے۔ ٭ چونکہ اِنسان قوت ِ علمیہ اَور کمالات ِ عملیہ کا حاصلِ ضرب ہے اَور زوجیت مساوات کی مقتضی ہے (عقلاً عرفًا) اِس لیے عورت کی مساوات بالرجل چار سے ہی ہوسکتی ہے کیونکہ حدیث بتلاتی ہے کہ عورت کی قوت ِ علمیہ نصف رجل ہے جس پرنصاب ِ شہادت دلالت کرتا ہے : قولہ تعالٰی: فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُل وَّامْرَأَتَانِ یہ نص ہے اَور قوت ِ عملیہ بھی نصف ہے جس پر لفظ شَطْرُ دِیْنِھَا (الحدیث) دلالت کرتا ہے دین عمل ہی سے ہوتا ہے لہٰذا عورت نصف قوت ِ عملیہ اَور نصف قوت ِ علمیہ کی حاصل ہوئی ٢/١x٤/٢ ضرب دیں تو حاصل ِ ضرب ٤/١ نکلتا ہے اِس لیے چار عورتیں ایک مرد کے مساوی اپنی فطری قوت سے ہوسکیں گی۔