ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
اُن سے اچھا برتاؤ کیا تو یہ لڑکیا ں اُس کے لیے دوزخ کی آڑ بن جائیں گی۔ (مشکوة شریف) ایک مرتبہ سیّد ِ عالم ۖ کے زنان خانے میں ایک بکری ذبح کی گئی۔ آنحضرت ۖ باہر تشریف لے گئے۔ کچھ دیر کے بعد تشریف لائے تو دریافت فرمایا کہ بکری کا کیا ہوا؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ (سب صدقہ کردی گئی) صرف اُس کا ہاتھ باقی ہے۔ آنحضرت ۖ نے فرمایا واقعہ یہ ہے کہ اُس کے ہاتھ کے علاوہ سب باقی ہے ۔مطلب یہ تھا کہ جو اللہ کی راہ میں دے دیا گیا باقی وہی ہے اور جو اَبھی ہمارے پاس ہے اُس کو باقی کہنا دُرست نہیں۔ کما قال اللہ عزوجل مَاعِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَاللّٰہِ بَاقٍ۔ خوف ِ خدا اَور فکر ِ آخرت : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عابدہ زاہدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والی اور آخرت کی بہت فکر رکھنے والی تھیں۔ایک مرتبہ دوزخ یاد آگئی تو رونا شروع کردیا۔ آنحضرت ۖ نے رونے کا سبب پوچھا تو عرض کیا کہ مجھے دوزخ کا خیال آگیا اِس لیے رو رہی ہوں۔ (مشکوٰة شریف) ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دربار ِ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ جب سے آپ نے منکر نکیر کی (ہیبت ناک آواز) کا اور قبر کے بھینچنے کا ذکر فرمایا ہے اُس وقت سے مجھے کسی چیز سے تسلی نہیں ہوتی (اور دِل کی پریشا نی دُور نہیں ہوتی )۔ آپ ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ اے عائشہ !منکر نکیر کی آواز مومن کے کانوں میں ایسی معلوم ہوتی ہے (جیسے آنکھوں میں سرمہ) اور قبر کا مومن کودبانا ایسا ہوتا ہے جیسے کسی کے سر میں درد ہو اور اُس کی شفقت والی ماں آہستہ آہستہ دبائے اور وہ اُس سے آرام و راحت پائے (پھر فرمایا کہ) اے عائشہ ! اللہ کے بارے میں شک کرنے والوں کے لیے خرابی ہے اور وہ قبر میں اِس طرح بھینچے جائیں گے جیسے کہ اَنڈے پر پتھر رکھ کر دبا دیا جائے ۔(شرح الصدور) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک روز میرے پاس ایک یہودی عورت اَندر گھر میں آئی اور اُس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا۔ ذکر کرتے کرتے اُس نے مجھ سے کہا اَعَا ذَکِ اللّٰہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ (اللہ تعالیٰ تجھے عذاب سے پناہ میں رکھے)جب آنحضرت ۖ تشریف لائے تو میں نے عذاب ِ قبر کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا عذاب ِ قبر حق ہے۔ اِس کے بعد میں نے آنحضرت ۖ کو دیکھا کہ ہر نماز کے بعد عذاب ِ قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے ۔(بخاری و مسلم)۔( باقی صفحہ ٣٣ )