ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
چار رَوز اُندلس میں ( حضرت مولانا ضیاء المُحسن صاحب طیّب،برمنگھم، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور ) .ہم پانچ احباب پر مشتمل قافلہ جس میں مخدوم ڈاکٹر اخترالزمان صاحب غوری، مولانا محمد قاسم صاحب، مولانا آفتاب احمد صاحب، ڈاکٹر محفوظ الرحمن صاحب اور راقم الحروف ضیاء المحسن طیب شامل تھے۔ My Travel کی فلائٹ سے دو بجے دِن اسپین کے شہر Malaga کے لیے روانہ ہوئے۔ برمنگھم ائیرپورٹ سے مالگا کا سفر اَڑھائی گھنٹے کا ہے۔ جہاز میں عملے کے اَرکان کے علاوہ 180 کے قریب مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی تمام نشستیں فل تھیں، میں نے جہاز میں نظر اُٹھاکر دیکھا تو ہم پانچ اور ایک پاکستانی جوڑے کے علاوہ تمام انگریز اَور وائٹ (white) مسافر سوار تھے جس میں ہم ایشائی اور یورپی لوگوں کے درمیان سیرو سیاحت کے تناسب کا اَندازہ لگا نا کوئی مشکل نہیں ۔اِس بارے میںدوستوں کا کہنا یہ تھا کہ ہمارے ایشیائی لوگوں کا دھیان اور رُجحان مکانات کی تعمیر اور پلاٹوں کی خریدو فروخت کی طرف ہے سیرو سیاحت سے اِنہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ مخدوم جناب غوری صاحب جو ماشاء اللہ تجربہ کار اور منجھے ہوئے طبیب ہیں اُنہوں نے بڑے پتے کی بات کہی ،اُن کا کہنا تھا ہمارے لوگوں میں ڈپریشن کی بڑھتی ہوئی بیماری کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم لوگ سیر کے لیے وقت نہیں نکالتے جو صحت کے لیے اَز حد ضروری ہے اگر ہم کچھ وقت اِس کے لیے نکالیں تو اِس بیماری سے کافی حد تک چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ٹورِسٹ مسافروں کو لے جانے والی فلائٹوں میں عام جہازوں کی طرح آؤ بھگت نہیں ہوتی بلکہ ایسے ہی ہے جیسے آپ ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھ جائیں، چائے پانی کی اگر کسی مسافر کو خواہش ہو تو وہ جہاز کے اَندر سے خرید سکتا ہے، بس ایک یہی سہولت ہے جو ائیر لائن والے دیتے ہیں۔ ہم لوگ گھر سے سینڈوِچ اَورکباب وغیرہ بنا کر لائے تھے جس سے لطف اَندوز ہوئے ،دوران ِ سفر ایسی چیزوں کا مزہ کچھ اَور ہی ہوتا تھا۔