ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
انگریزی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے، ہمارے ہاں پڑھا لکھا اُسی کو سمجھا جاتا ہے جو انگریزی جانتا ہو۔ میرے خیال میں ایک آزاد قوم اور محکوم قوم میں یہی فرق ہے ۔آزاد قومیں اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں اور غلام قومیں دُوسری قوموں کی زبان پر فخر اور اپنی زبان سے نفرت کرتی ہیں۔یورپ میں لوگ انگلش جاننے کے باوجود انگلش نہیں بولتے۔خیر چائے پی ،چائے کیا تھی لسی کے گلاس تھے پتی کا نام و نشان نہ تھا چائے کی تمنا پوری نہ ہوئی طلب ابھی باقی تھی۔ وہاں سے نکل کرہم نے اپنے سفر کا دوبارہ آغاز کیا اور منزل کی طرف بڑھنے لگے جس راستے پر ہم سفر کر رہے تھے وہ پہاڑی علاقہ تھا تمام پہاڑوں پر نہایت مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ زیتون کے درخت لگادیے گئے ہیں زیتون کے درخت حدّ ِ نگاہ تک پھیلے ہوئے تھے اُن کو ایسی خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ لگایا گیا ہے کہ عقل ِانسانی دَنگ رہ جاتی ہے ۔یہ ایک عجیب و غریب اور ایسا منظر تھا جو ہم نے پہلے کسی ملک میں نہیں دیکھا ،ایسے مناظر کا لطف دیکھ کر ہی اُٹھایا جا سکتا ہے۔ اُن کو الفاظ کی زبان دینا ممکن نہیں یہ کسی عجوبے سے کم نہیں،پہاڑوںکی چوٹیوں پر زیتون کے درختوں کے جُھنڈ اَور اُن کے دامن میں سورج مکھی کے زرد پودوں کی کاشت ایک عجیب اور دل فریب نظارہ پیش کر رہی تھی۔پورے راستے میں ہمیں زمین کا کوئی حصہ بے کار پڑانظر نہیں آیا جس طرح عام ملکوں میں ہوتا ہے جو قومیں دُنیا میں عزت و قار کے ساتھ جینا چاہتی ہوں اُن کے شایان ِ شان یہی ہے کہ وہ محنت کریں اَور اپنی مٹی کو سونے میں تبدیل کردیں تاکہ وہ کسی کے محتاج نہ ہوں بلکہ دُنیا اُن کی محتاج ہو۔ سائے آہستہ آہستہ لمبے ہوتے جارہے تھے سورج بڑی تیزی کے ساتھ پہاڑوں کی چوٹیوں سے ڈھلتا دیکھ کر ہم نے نماز ِ عصر کے لیے اپنی گاڑی ایک پٹرول اسٹیشن پر کھڑی کردی کیونکہ نبی کریم ۖ نے نماز ِ عصر کی خصوصی تاکید فرمائی ہے آپ کا ارشاد ِ گرامی ہے کہ جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اُس کا سب کچھ لُٹ گیا اور وہ اکیلا اِس دُنیا میں رہ گیا ہو۔ نماز ِ عصر کے لیے میں نے آذان دی اِن وادیوں اِن فضاؤں اور ہواؤں نے نہ جانے کتنی صدیوں بعد خداکی توحید کا اعلان سنا ہوگا۔ مولانا محمد قاسم صاحب نے امامت کی سعادت حاصل کی۔اسپین کے سنگلاخ پتھروں پر سجدہ ریز ہو کر جو سرور آیا وہ برطانیہ کے قالینوں پر بھی نہ تھا۔ رات کا اندھیرا چھاجانے کے خوف سے ہم جلدی جلدی قرطبہ پہنچنا چاہتے تھے کیونکہ ابھی ہمیں اپنا