ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
ہمارے گھر کی جو عورتیں بیٹھیں تھیں اُن میں سے کسی نے اُس کو بدعا دی فرمانے لگے بدعا کیوں دیتی ہو وہ بھی برا کہہ رہا ہے اور تم بھی برا کہہ رہی ہو ،تم اور وہ برا بر ہوگئے پھر تو،چھوڑو اِس کا معاملہ اللہ پر چھوڑدو۔ (تو بعد میں)بظاہر بہت بری موت اُس کو آئی نام بتانے کی ضرورت نہیں بہت بری موت باقی بھید اللہ کو پتا ہے بظاہر کی بات کر تا ہوں اِس سے زیادہ تو ہمیں کہنے کا حق ہی نہیں۔ مخلص کی تنقید برداشت اَور بدخواہ کی نظراَنداز کریں : ایک دفعہ میں نے کہا کہ مدرسے کا فلاں فلاں آدمی ایسا ہے کام بھی ٹھیک سے نہیں کرتا اور دل سے آپ کا مخالف بھی ہے آپ اِسے ہٹا دیں کوئی اَور رکھ لیں ۔فرمانے لگے نہیں یہ علاج نہیں ہے اِس کو ہٹاؤگے دُوسرا آجائے گا اِس جیسا اِس لیے کہ جب بھی اجتماعی کام میں انسان پڑے گا تومخالف موافق دونوں طرح کے ملیں گے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ موافق ہی موافق ہوں۔ سب موافق ہونے کا نقصان : جہاں موافق ہی موافق دائیں بائیں ہوجائیںوہاں تو آدمی ڈوب جاتا ہے وہ تو پھر خوشامدی ماحول میں گِھرگیا حقائق اُس کی آنکھوں سے اَوجھل ہوجاتے ہیں تورَلا مِلا ماحول جو ہوتا ہے اُس میں اُس کے سامنے حقائق آتے ہیں ورنہ نہیں آتے۔ اِس لیے مخالفت سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ تنقید برداشت کرنے کا مادّہ پیدا کریں : بھائی مخالف کی تنقید برداشت کرنے کا اپنے اَندر مادّہ پیدا کریں بس اِتنی سمجھ ضروری ہے آپ میں کہ یہ تنقید کرنے والا میرا مخلص ہے یا بدخواہ ہے، بدخواہ تنقید کر رہا ہے تو اِدھر سے سن کر اُدھر نکال دو اَور اگر خیر خواہ ہے تو اُس کی قدر کریں اور اُس کی مطابق جو عمل کرنا چاہیے وہ عمل کریں ۔کوئی خلاف کارروائی کرنی پڑتی ہے بدخواہ ہے اور کاروائی کر سکتے ہیں آپ اَور اُس کارروائی کی وجہ سے فتنہ زیادہ نہیں ہوتا تو کارروائی کریں۔ اگر کاروائی کے نتیجہ میں فتنہ اِتنا ہے اور پھر اِتنا ہوگا تو پھر نہ کریں۔ تو موافق اور مخالف سب جگہ ہوتے ہیں۔ تو میں نے کہا حضرت اِس کو ہٹادیجیے کوئی اَور رکھ لیں اِس کی جگہ۔ کہنے لگے نہیں،ہو ہی نہیں سکتا اِسے ہٹاؤ گے دُوسراآجائے گا اِس جیسا اَور پھر فرمانے لگے وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْس