ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
قسط : ٢ ،آخری اَلوَداعی خطاب جامعہ مدنیہ جدید میں ٢٠شعبان المعظم مطابق١٢ اگست کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سےّد محمود میاں صاحب نے دورۂ صرف ونحو کے تقریباً ٦٠٠ طلباء سے الوداعی خطاب فرمایا،اِس کی افادیت کے پیش ِنظر اِسے شائع کیا جا رہا ہے،قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں ۔(ادارہ) علماء صالحین کی بدعا سے بچو ۔ نا آشنا کو تصوف پر رائے زنی کا حق نہیں ہے طلباء علوم ِ نبویہ کا تصوف کی طرف متوجہ ہو کر مرتبہ ٔ اِحسان حاصل کرنا نہایت ضروری ہے فرصت کو غنیمت جانیں اَور ریاضت میں لگ جائیں۔ جائز تنقید برداشت کرنی چاہیے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں اور اِنہوں نے بڑے تحمل سے سنے اِلزامات، کوئی جواب نہیں گالی نہیں یہ نہیں کہا اچھا یوں بکواس کرتا ہے میںاِسے ٹھیک کرتا ہوں بے قابو ہوتے اُٹھتے غصہ دکھاتے کچھ نہیں لیکن دِل پر چوٹ لگ گئی اِن الزامات کی وجہ سے کیونکہ اِس سے بڑھ کر سنگین الزامات کیا ہوسکتے ہے بد دیانتی کے ۔اللہ کا نیک بندہ سارے نظام بہت اچھے چلا رہے دیانت داری کے ساتھ اور وہ مجمع میں الزام لگا رہا ہے سن کر فرمانے لگے کہ اِس نے مجھ پر تین الزامات لگائے ہیں میں اِسے تین بدعائیں دیتا ہوں میں اِس سے زیادہ پڑتا ہی نہیں معاملے میں کہ یہ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ کہہ رہاہے میں معاملہ یہاں سے لے کر اللہ کے عدالت میں لے جارہا ہوں چونکہ (ایک طرح سے )ذاتی معاملہ تھا۔اگرذاتی نہ ہوتا(بلکہ) لوگوں کے حقوق سے(متعلق ہوتا تو) پھر اُسے اللہ کی عدالت میں دینے کا حق نہیں ہے پھر تو وہ کسی اور(بندہ) کا حق ہے۔ ١ ١ حقوق اللہ اَور حقوق العباد میں یہ فرق ہے کہ بندہ پر ہونے والی زیادتی خود مظلوم بندہ تو اللہ کے سپرد یا معاف کر سکتاہے مگر اُس کی طرف سے کوئی دُوسرا بندہ معاف یا اُس کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے آخرت پر نہیں ٹال سکتا بلکہ دُنیا میں فوری کارروائی کر کے اُس کا حق دِلانا ضروری ہے۔