ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2009 |
اكستان |
|
اَب حسب ِذیل مسائل سمجھئے : اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ پہنچا اوراُس نے اشہر حج میں عمرہ کیا (چاہے ایک عمرہ کیا ہو یا چند عمرے کیے ہوں ) اورپھر وہاں سے کسی ایسے مقام پر گیا جو میقات سے باہر تھا جیسے طائف وغیرہ پھر گھر واپس جانے سے پہلے پہلے حج کرلیا تو اُسے تمتع کا اَجر ملے گا۔لیکن اِس شکل میں صاحبین یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ طائف وغیرہ میں پندرہ دن سے کم ٹھہراہے تب تو واپسی پر چاہے وہ فقط حج کا احرام باندھ کر حج کرے ،وہ امام اعظم کے اِرشاد کی طرح ''مُتمتع''ہوگا ۔اور اگر پندرہ دن سے زیادہ وہاں ٹھہرا رہے تو (تمتع کی نیت سے کیا ہوا عمرہ قابل شمار نہ رہے گا اَور)اَب اگر مکہ شریف آتے وقت وہ (نئے سرے سے)عمرہ کا احرام باندھ کر آئے گا تو اُس کا یہ تمتع ہوگا ورنہ فقط ''اِفْرَاد ''ہوگا۔ ایک شکل یہ ہے کہ ایک شخص نے اشہر حج سے پہلے مکہ مکرمہ میں قیام کیا(اور مکی کے حکم میں ہو گیا۔وہ) پھر اشہر حج میں مثلاً طائف چلا گیا اور وہاں سے(مکہ مکرمہ کی طرف) واپسی پر میقات سے گزرتے ہوئے صرف عمرہ کا احرام باندھا (اور عمرہ کیا)پھر مکہ مکرمہ میں حج کا احرام باندھا ۔ تو امام اعظم رحمة اللہ علیہ کے نزدیک چونکہ وہ مکی ہو چکا تھا اِس لیے متمتع نہ ہو گا جبکہ صاحبین کے نزدیک وہ متمتع ہوگا اَور اِس صورت میں اُسے دم ِشکر تمتع دینا چاہیے اِسی میںاحتیاط ہے۔(ص١٨٨)۔ ١ اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ سے اشہر حج شروع ہونے سے پہلے مثلاً طائف چلاگیا اورپھر اشہر حج میںعمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ آیا تو وہ بالاتفاق متمتع ہے۔ حامد میاں غفر لہ ٢٨شوال ١٣٨٣ھ چہار شنبہ ١١ مارچ ١٩٦٤ء ١ ومن کان آفا قیا غیر طائفی فان خرج من مکة قبل اشہر الحج ثم عاد فیھا واحرم بعمرة وحج من عامہ فھو متمتع علی قولھما ویلزمہ دم التمتع (اِرشاد الساری ص١٨٨)