ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
پان، تمباکو، سگریٹ اور چائے کی پختہ عادت۔ -iv کوئی پیشہ ایسا ہو جس کے ساتھ روزے رکھنا بہت مشکل ہو۔ -v موسم بہت گرم ہو اور آدمی میں روزے کے ساتھ موسم کی برداشت نہ ہو۔ -vi روزے کا طبیعت پر زیادہ گراں ہونا۔ آخری چار عوارض کا بیان یہ ہے کہ اُوپر روزہ توڑنے والے کے قصّہ میں روزوں کی اِستطاعت کے نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ لہٰذا اِس میں ہر ایسے عارضہ کا اِحتمال ہے جو موجب ِ مشقت ہو۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ خوشی خوشی روزے کی مشقت کو برداشت کرتے ہیں اور بہت سے نفلی روزے رَکھ لیتے ہیں اور آخرت میں باب الریان سے بلائے جانے کے حق دار ہوں گے جبکہ بعض ایسے ہوتے ہیں جو فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے شاذ و نادر ہی رکھتے ہیں اور روزوں میں بہت گرانی محسوس کرتے ہیں۔ اُن لوگوں کے لیے متواتر ساٹھ روزے رکھنا تو سخت مشقت کی بات ہے۔ خصوصیت کا دعوٰی اور اُس کا جواب : ہماری بات کے برعکس عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ ظہار کے قصّہ میں بھی اور روزہ توڑنے کے قصّہ میں بھی صاحب ِقصّہ کو خصوصی رعایت دی گئی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ اِن قصّوں میں دو باتیں مذکور ہیں : -i صاحب ِ قصّہ کے عدمِ استطاعت کے دعوے کو قبول کرنا۔ -ii کفارہ کی کھجوریں اپنے گھر والوں کو کھلانے کو کہنا۔ پہلی بات میں خصوصیت کا دعوٰی کرنا دعوٰی بلادلیل ہے حالانکہ خصوصیت پر کوئی دلیل و قرینہ ہونا ضروری ہے۔ اِس ضرورت کی تائید اِس عبارت سے ہوتی ہے۔ قَالَ فِیْ نَصْبِ الرَّایَةِ قَالَ الْمُنْذِرِیُّ فِیْ حَوَاشِیْہِ وَقَوْلُ الزُّھْرِیْ اِنَّمَا کَانَ ھٰذَا رُخْصَةً لَّہ خَاصَّةً دَعْوًی لَمْ یَکُنْ عَلَیْھَا بُرْھَان وَقَالَ غَیْرُہ اِنَّہ مَنْسُوْخ وَھُوَ اَیْضًا دَعْوًی ۔ ''نصب الرایہ میں ہے علامہ منذری رحمہ اللہ نے اپنے حواشی میں لکھا ہے کہ امام زُہری رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ یہ خاص اُس شخص کے لیے رُخصت تھی دعوٰی بلادلیل ہے۔ اور بعض