ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
پسند نہیں کرتے تھے، نہ کسی طالب علم کو طالب علمی کے دَوران سیاست کی اجازت دیتے تھے۔ ایک دفعہ ایک مدرس تھے، ہمارے بھی اُستاد تھے اللہ اُن کی مغفرت فرمائے، اُنہوں نے کوئی سیاسی بات کی سبق میں۔ حضرت کو علم ہوگیا بُلالیا اور خوب اُنہیں ڈانٹا اور فرمانے لگے کہ آپ سبق میں سیاسی گفتگو کرتے ہیں کبھی میں نے بخاری شریف کے سبق میں کوئی سیاسی بات کی ہے۔ حالانکہ سیاست میں تھے اور جمعیت کے امیر تھے لیکن سبق میں نہیں کرتے تھے سیاسی بات۔ ہمارا بھی یہی طریقہ ہے الحمد للہ۔ اِن طالب علموں کو یہی کہتے ہیں کہ پڑھنے کے دَوران صرف پڑھیں، بس محنت کریں۔ جب فارغ ہوجائیں تو پھر اپنے مزاج اور ذوق کے اِعتبار سے جس میدان میں دِل چاہے کام کریں۔ وہ عمل کا وقت ہوگا۔ مدارس میں سیاست نہیں ہوتی مگر سیاستدان تیار ہوتے ہیں : تو مدرسے میں سیاست نہیں ہوتی، مدرسے میں فوجی تربیت نہیں ہوتی لیکن یہاں رِجال تیار ہوتے ہیں، سیاست نہیں ہوگی سیاستدان تیار ہوں گے یہاں پر۔ ہمارے اَکابر کو دیکھ لیں حضرت گنگوہینے سیاست کی مدرسے سے پیدا ہوئے۔ حضرت شیخ الہند نے سیاست کی مدر سے سے پیدا ہوئے، حضرت مولانا شاہ اِلیاس صاحب، حضرت مولانا یوسف صاحب تبلیغی جماعت کے بانی یہ حضرات، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب سب اِنہی حضرات کے طفیل پیدا ہوئے مدرسوں کے طفیل پیدا ہوئے۔ یہ ساری خدمات دُنیا میں جو ہورہی ہیں تبلیغی جماعت کی شکل میں ہو، ختم ِ نبوت کی شکل میں ہو، سیاست کے رَنگ میں ہو، جہاد کے رَنگ میں ہو یہ دینی مدارس کی برکت ہے۔ تو دینی مدارس کا تحفظ بھی اِس میں ہے کہ ہم سیاسی طور پر مضبوط ہوں۔ اگر سیاسی طور پر مضبوط ہوں گے تو حکومتیں ڈریں گی اِس کے علاوہ باقی چیزوں سے وہ نہیں مرعوب ہوتیں۔ جتنی زیادہ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں ہوں گی اُتنا ہی ایجنسیوں کا کام آسان ہوگا : اِس لیے ضرورت ہے کہ اِس پُرفتن دَور میں جتنی چھوٹی تنظیمیں ہوں گی ایجنسیوں کا کام اُتنا آسان ہوجائے گا ایجنسی ایسا خوفناک چھپا ہوا دُشمن ہے کہ الامان والحفیظ اللہ ہی اِن کے شر سے بچائے ورنہ اِنسان کے بس میں نہیں ہے کہ اِن کے شر اور طاقت سے بچ سکے۔ طاقت بھی ہے، وسائل بھی ہیں اِن کے پاس اور چھپے ہوئے ہوتے ہیں اوراپنا کام کرتے ہیں اور لوگوں کو اِستعمال کرتے ہیں۔ تو جتنی چھوٹی تنظیم ہوگی اُن کو اِستعمال کرنا آسان ہوجائے گا جتنی بڑی تنظیم ہوگی اُسے اِستعمال نہیں کرسکیں گے۔