ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لوگوں نے اِسلام قبول کیا ہے اور عمرو بن العاص نے دِل سے اِسلام قبول کیا ہے دل کی گہرائی سے اِسلام قبول کیا ہے اٰمَنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ یہ اِن کی فضیلت ہے۔ عرب کے چار دانا : اَب سمجھداری اور نکتہ رسی یہ اِن کے اُوپر ختم تھی تو عرب کے جو بڑے بڑے لوگ رہے ہیں اپنے دَور میں گزرے ہیں بیک وقت وہ چار آدمی شمار ہوتے ہیں، حضرت عمرو بن العاص، حضرتِ معاویہ اور ایک قیس ہیں صحابی ہیں اور ایک مغیرہ بن شعبہ ہیں، یہ مغیرہ بن شعبہ بھی اِسی طرح سمجھدار تھے اور قیس بھی اِسی درجے میں سمجھدار تھے اور قیس اَنصاری ہیں، باقی حضرات جو ہیں یہ اَنصاری نہیں ہیں یہ مکہ مکرمہ کے رہنے والے ہیں ، قیس بن عبادة نہیں (بلکہ) سعد بن ِ عبادہ ١ یہ رسول اللہ ۖ کے سامنے کھڑے رہتے تھے جیسے کوئی سپاہی کھڑا رہتا ہو کسی کے سامنے اِس طرح، بعد میں یہ حضرت ِعلی کے ساتھ رہے ہیں تمام لڑائیوں میں اور جس جگہ یہ ہوتے وہاں کبھی شکست نہیں کھائی انہوں نے۔ حضرتِ علی نے اِن کو مصر سے معزول کرکے بلایا وہاں اشتر کو بھیج رہے تھے تو راستے میں کسی نے زہر دیا یا کیا ہوا تو اِنتقال ہوگیا اِس کا۔ سیانوں کی نصیحت پر کان نہ دَھرنے کا نقصان : پھر محمد ابن ِ ابی بکر کو بھیجا وہ گئے وہاں، اُنہیں اِنہوں نے (یعنی حضرت قیس نے) نصیحتیں کیں اور چارج دے دیا۔ اُن کی غلطی تھی کہ اِن کی نصیحتوں کو اُنہوں نے صحیح نہیں سمجھا بلکہ اپنی مرضی سے اُن نصیحتوں کے خلاف کیا تو مصر کی حکومت ختم ہوگئی۔ بہرحال حضرت قیس مصر سے آئے اور پہنچے مکہ مکرمہ۔ حضرت علی و معاویہ نے حرمین کو باہمی لڑائیوں سے بچائے رکھا : مکہ مکرمہ کو اور مدینہ منورہ کو حضرت علی اور حضرت معاویہ نے کبھی لڑائی کی آماجگاہ نہیں بنایا بالکل بلکہ ایسے بھی ہوا ہے کہ مکہ مکرمہ میں اَمیر حج بدلتے رہے ہیں، کبھی حضرتِ علی کا آدمی کبھی حضرتِ معاویہ کا آدمی۔ مکہ مکرمہ کو آزاد ہی چھوڑا ہے اُنہوں نے کہ یہاں کوئی بے حرمتی بالکل نہ ہونے پائے، ہمارے جھگڑے کا یا لڑائی کا اَثر یہاں نہ ہو۔تو یہ حضرتِ علی کا ہی علاقہ تھا اُنہوں نے اِسے ایسے ہی بالکل آزاد چھوڑر کھا تھا۔a