ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
آپ نے سُنا ہوگا کہ پانچ چھ سال پہلے الجزائز میں مذہبی جماعت جیتی تھی سارے ووٹ اُس نے لیے تھے اور وہ (آئینی طور پر)بر سر اِقتدار آنے کو تھی کہ فوج نے مداخلت کرکے ناکام بنایا، اِس تحریک کے سربراہ یہی شیخ تھے ١ تو الجزائر میں جو خدمات ہیں وہ دیوبند کی ہیں، عراق میں بھی اِنہی کی ہیں، یہاں بھی اِنہی کی ہیں۔ تمام چھوٹی جماعتیں بڑی جماعت میں ضم ہوجائیں : جتنی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں ہیں اُنہیں چاہیے اپنے وجود کو ختم کرکر بڑی میں شامل ہوجائیں تو ہم عسکری طور پر بھی مضبوط ہوں گے سیاسی طور پر بھی مضبوط ہوں گے۔ اِس ملک میں میں نہیں کہتا کہ ہمیں عسکری قوت کے طور پر (کام کرنا چاہیے) کیونکہ یہاں ذرا اور نظام ہے، افغانستان کے اور عراق کے اور حالات ہیں، وہاں عسکری قوتوں کی ہم سب تائید کرتے ہیں۔ جو اہل ِ حق ہیں جو مجاہدین ہیں اللہ اُن کی مدد فرمائے اُنہیں ثابت قدم رکھے، باطل کو شکست ِ فاش ہو، اُنہیں ناکام و نامراد کرے۔ لیکن پاکستان میں ہم سیاسی قوتوں کے مقابلے میں ہیں اِس لیے اگر سیاسی قوت کے طور پر مضبوط ہوں گے تو عسکری قوتیں آپ کے تابع ہوجائیں گی، اِس لیے ضروری ہے کہ جو جس تنظیم سے وابستہ ہے اُس کے بڑوں کے سر، پائوں میں ٹوپی رکھے پگڑی رکھے،ہم رکھنے کے لیے تیار ہیں ہمیں لے چلو کہ بھئی خدا کے لیے اپنے وجود کو ختم کرو اور اللہ سے ڈرتے ہوئے بڑی تنظیم میں شامل ہوجائو تاکہ ہم میں مضبوطی ہو۔ اُن کی خوشامد کرے وہ نہیں راضی ہوتے تو آپ اُنہیں چھوڑکر خود بڑی تنظیم سے وابستہ ہوجائیں اُن کو اُن کے حال پر چھوڑدیں، اُن سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے، دست و گریبان نہیں ہونا اُنہیں چھوڑدیںاور خود بڑی میں شامل ہوجائیں۔تو یہ دو قوتیں ایسی ہیں کہ جس میں فی الوقت مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ دَورانِ تعلیم طلباء کو عملی سیاست میں حصّہ نہیں لینا چاہیے : مدارس میں تو سیاست نہیں ہوتی مگر امریکہ اور برطانیہ اِس لیے خائف ہیں کہ یہاں سے رجالِ کار تیار ہوتے ہیں حالانکہ مدرسہ میں تو سیاست نہیں ہوتی۔ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ جمعیت علمائے اِسلام کے امیر تھے لیکن مدرسے میں(عملی) سیاست ١ شیخ محمد بشیر اِبراہیمی بحوالہ چراغ محمد ص ٤٧٦