ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
میں جو اِنتشار ہے اور چھوٹی چھوٹی جو سیاسی کئی جماعتیں بنی ہوئی ہیں اِس نے ہماری قوت کو بکھیر رکھا ہے۔ بڑی تنظیم چھوٹی میں ضم نہیں ہوسکتی : اَب اِس کا ایک تو حل یہ ہے کہ بڑی تنظیم چھوٹی تنظیم میں اپنے کو ضم کردے، اور ایک یہ حل ہے کہ چھوٹی تنظیمیں اپنے وجود کو فنا کرکے بڑی میں ضم کردیں اور اپنے وجود کو ختم کردیں۔ تو بڑی تنظیم چھوٹی میں ضم ہو یہ نہیں ہوا کرتا یہ محال ہے یہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ آپ دیکھیں کہ سمندر ہے مثال کے طور پر اِس میں دُنیا بھر کے دریا گرتے ہیں۔ دریائے نیل ہے، دریائے فرات ہے، دریائے راوی ہے، دریائے سندھ ہے، ستلج ہے، جمنا ہے، گنگا ہے اور دُنیا کے جتنے بڑے بڑے دریا ہیں چاہے بڑے دریا ہوں یا چھوٹے دریا ہوں جب سمندر کے پاس جاتے ہیں تو اپنا نام و نشان مٹادیتے ہیں۔ سمندر میں جانے کے بعد کوئی دریا یہ نہیں کہتا کہ میں راوی ہوں، کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں ستلج ہوں، کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں سندھ ہوں، کوئی گنگا اور جمنا باقی نہیں رہتے۔ اگر سمندر میں جانے کے بعد بھی گنگا جمنا باقی رہے تو وہ سمندر نہیں ہے۔ ہماری قوت سمندر کی شکل اِختیار کرلے اِس کے لیے ضروری ہے کہ جتنی چھوٹی تنظیمیں ہیں یہ اپنے وجودکو فنا کردیں۔ جیسے چھوٹے چھوٹے دریا جب سمندر میں گرتے ہیں تو اپنے وجود کو ختم اور فنا کردیتے ہیں۔ فنا کی برکات : اِس فنا کا فائدہ اور برکات کیا ہوتی ہیں؟ اُس کی برکات یہ ہیں کہ جب چھوٹے چھوٹے دریا اپنے کو فنا کردیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس کو سمندر کی شکل میں تبدیل کردیتے ہیںجب سمندر کی شکل میں تبدیل ہوتا ہے تو اُس کے برکات اور فائدے ساری دُنیا کو محیط ہوتے ہیں۔ دریا کا فائدہ تو اُس علاقے کو ہے صرف جہاں سے وہ گزررہا ہے، سمندر کا پوری دُنیا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ پھر اُس میں بحری بیڑے بھی چلیں گے، پھر اُس میں آبدوزیں بھی چلیں گی، پھر اُس میں جہاز رانی بھی ہوگی اور بہت کچھ ہوگا اُس میں، ساری دُنیا کا نظام اُس سے چلے گا لیکن اگر ہم کہیں کہ نہیں میں نے تو دریائے سندھ ہی رہنا ہے اور میں تو اپنے وجود کو نہیں مٹائوں گا اور دریائے سندھ رہتے ہوئے ہی میرے اندر بحری بیڑا بھی چلنا چاہیے اور آبدوز بھی چلنی چاہیے اور بڑے چھوٹے سب جہاز ہونے چاہئیں تویہ محال ہے، یہ نہیںہوسکتا اور نہ آئندہ ہوگا قیامت تک۔