ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
قسط : ٢٠ اَللَّطَائِفُ الْاَحْمَدِےَّہ فِی الْمَنَاقِبِ الْفَاطِمِےَّہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) (٦٢) اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ اٰلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا ۔ (ترمذی ) ''فرمایا حضور ۖ نے اے اللہ کردے رزق آل ِمحمد ۖ بقدرِ کفایت و حاجت''۔ سبحان اللہ! کیا رحم تھا آل محمد ۖپر اللہ کا کہ دُنیا سے اِن کو نہایت دُور رکھا اور کیسی شفقت تھی اور کس قدر خیا ل تھا اطاعت ِالٰہی کا جناب رسول مقبول ۖ کو کہ اپنی ذات مقدسہ اور اپنی آل کو دُنیا سے ہٹائے رکھا اور دُنیا میں باوجود قدرت ِعیش وعشرت میں مشغول ہونے کے محض رضائے الٰہی کی غرض سے اور تعلیم ِاُمت کی غرض سے بالکل بچائے رکھا اور اِس مقدس تعلیم اور دُعا کی بدولت اہل بیت میں بڑے بڑے صاحب کمال لیکن دُنیا سے بیزار حضرات پیدا ہوئے۔ یہ بھی بڑی فضیلت ہے حضرت فاطمہ کی کہ وہ دُنیا جیسی ناپاک چیز اور غفلت میں ڈالنے والی مہلک بیماری سے اپنے کو بچالے گئیں اور حضور ۖ کی دُعا کی برکت سے دین کا اعلیٰ رُتبہ حاصل کیا اور دُنیا کی طرف مطلقاً توجہ نہ کی ۔ اِس دُعا کی برکت تھی کہ خلافت حضرات ِاہل ِبیت کو موافق نہ آئی اور وہ حضرات اِس کی آسائش سے منتفع نہ ہو سکے چنانچہ اہل ِتواریخ پر حضرت علی اور حضرت امام حسن کی خلافت کا حال ظاہرہے ۔اللہ تعالیٰ نے ذرا سالگائو بھی دُنیا کا اِن حضرات کے لیے پسند نہ کیا، گو کارِخلافت بوجہ انتظام ِدین دینی کام تھا لیکن پھر بھی دین ِمقصود اور محض مشغولی ٔحق سے کسی درجہ میں خالی تھا ۔اور یہ بات باریک ہے اہل بصیرت خوب اندازہ کرسکتے ہیں ۔ہاں علوم ظاہری وباطنی کے وہ حضرات مخزن رہے لَقَدْ اَحْسَنَ مَنْ قَالَ