ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
ساتھ رات کو بیوی سے صحبت کرسکتے تھے۔ اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک تندرُست و توانا آدمی جس میں شدتِ شہوت کا مسئلہ بھی نہیں تھا اُس کے عدمِ اِستطاعت اور عدمِ قدرت کے دعوے کو کس عارض کی وجہ سے قبول کیا گیا؟ اِس بارے میں جو جامع بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ آیت اور حدیث میں اِستطاعت سے مراد وہ اِستطاعت ہے جو مشقت کے موجب عوارض سے خالی ہو اور یہ عوارض بہت سے ہوسکتے ہیں۔ مولانا مفتی شفیع رحمہ اللہ بھی اَحکام القرآن میں لکھتے ہیں : یَدْخُلُ فِیْ مَنْ لَّا یَسْتَطِیْعُ اَصْلَ الصِّیَامِ اَوْلَایَسْتَطِیْعُ تَتَابَعَہ بِسَبَبٍ مِّنَ الْاَسْبَابِ کَکَبُرَ اَوْ مَرَضٍ لَایُرْجٰی زَوَالُہ اَوْ فَرْطُ شَھْوَةٍ لَایَصْبِرُ بِھَا عَنِ الْجِمَاعِ کَمَا یُؤَیِّدُہُ الْحَدِیْثُ الْوَارِدُ فِیْ ذٰلِکَ۔(احکام القرآن ص ١٩ جزء ٥) روزہ رکھنے کی اِستطاعت نہ رکھنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سرے سے روزہ نہیں رَکھ سکتے یا متواتر روزے نہیں رَکھ سکتے خواہ کوئی بھی سبب ہو مثلاً بڑھاپا یا لازوال مرض یا شدتِ شہوت ،جس کی وجہ سے جماع کے بغیر نہیں رہ سکتا جیساکہ اِس کی تائید اِس حدیث سے ہوتی ہے جو اِس بارے میں وارِد ہوئی ہے۔ -i شدتِ شہوت جس کا بیان اُوپر ظہار کی حدیث میں گزرا۔ -ii شدتِ جوع جیساکہ ابوحیان کی ذکر کردہ ایک حدیث میں مذکور ہے۔ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ فَھَلْ تَسْتَطِیْعُ اَنْ تَصُوْمَ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ فَقَالَ وَاللّٰہِ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اِذَا لَمْ آکُلْ فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَةِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ کَلَّ بَصَرِیْ وَخَشِیْتُ اَنْ تَعْشُوَ عَیْنِیْ ۔ (رُوح المعانی ص ١٥ جزء ٢٨) رسول اللہ ۖ نے پوچھا کیا تم متواتر دو مہینے کے روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ واللہ یارسول اللہ اگر میں دن رات میں تین مرتبہ کھانا نہ کھائوں تو میری آنکھیں پتھراجاتی ہیں اور مجھے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں میری آنکھیں بھینگی نہ ہوجائیں۔