ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
غرور کا آمیزہ تیار کردیا ہے جس نے اُن کے لیے خون ریزی، معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ سفاکی، درُوغ بیانی اور بدعہدی کو اعلیٰ اَخلاق باوَر کرا رکھا ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ صہیونیت یہودیت سے جداگانہ کوئی شئے ہے حالانکہ حقیقت میں وہ ایک ١ Protocol of the learned Elders of Zion Briton Pub Societv 1992 ہی سکّہ کے دو رُخ ہیں۔ صہیونیت یہودیت کے نفاذ کا آلۂ کار ہے۔ کوئی یہودی بھی آپ کو صہیونیت کا مخالف نہیں ملے گا جس کا مقصد یہ ہے کہ یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین پر بسایا جائے اور ایک عظیم اِسرائیلی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جو یہودی بظاہر صہیونیت سے اِختلاف کرتے نظر آتے ہیں وہ ایک خاص منصوبہ کے تحت ایسا کرتے ہیں اور اُن کی تعداد ڈیڑھ کروڑ یہودیوں میں چند ہزار اَفراد کی ہے۔ میری نظر میں صہیونیت پُرتشدد یہودیت کا دُوسرا نام ہے۔ یہودی مؤرخ ''ایلی لیوی'' کہتا ہے : ''ہم جب غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صہیونیت چار مختلف اَدوار پر محیط ہے۔ پہلا دَور تورات کا، دُوسرا ہرزل سے پہلے کا، تیسرا دَور ہرزل کے زمانہ کا جو ١٩٠٤ء سے شروع ہو کر ١٩١٨ء پر ختم ہوتا ہے، چوتھا دَور بلفور کے اِعلان کے بعد کا۔'' ١ یہودی مؤرخ مزید کہتا ہے : ''ہم کہہ چکے ہیں کہ سب سے پہلے موسٰی نے صہیونیت کا محل تعمیر کیا، اُس کو مستحکم کیا اور اُس کے سیاسی اُصول کی نشر و اِشاعت کی۔ واقعات اِس کے شاہد ہیں کہ صہیونیت ایک طویل زنجیر کی کڑی ہے۔'' ١ اِس یہودی مؤرخ کے اِقتباس سے یہ اَمر واضح ہے کہ صہیونیت ہی فی الحقیقت وہ یہودی تحریک ہے جس نے حضرت موسٰی کے زمانہ سے قومی رُوح کو بیدار کیا جیسا کہ اُس کا دعوٰی ہے اِس لیے یہودیت اور صہیونیت میں فرق کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ہر یہودی صہیونی ہوتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صہیونی یہودی ہو۔ کیونکہ بعض مغربی زُعماء جن کو صہیونیت نے خریدا اور اُن کے ضمیر کا سودا کیا جیسے چرچل، ایڈن، ٹرومین، آئزن ہاور، کنیڈی اور جانسن وغیرہ اِس پر فخر کرتے تھے کہ وہ صہیونیت کے مددگار ہیں۔ چرچل اکثر کہا کرتا تھا کہ وہ خالص