ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
( بیان حضرت مولانا سید اَرشد صاحب مدنی مدظلہم العالی ) بَابُ قَوْلِ اللّٰہِ وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ : وَاَنَّ اَعْمَالَ بَنِیْ اٰدَمَ وَقَوْلَھُمْ یُوْزَنُ وَقَالَ مُجَاہِد اَلْقُِسْطَاسُ اَلْعَدْلُ بِالرُّوْمِیَّةِ وَیُقَالُ اَلْقِسْطُ مَصْدَرُ الْمُقْسِطِ وَھُوَ الْعَادِلُ وَاَمَّا الْقَاسِطُ فَھُوَ الْجَائِرُ ( وَبِہ قَالَ ) حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ اَشْکَابَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَیْلٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ اَبِیْ زُرْعَةَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (وَعَنْھُمْ) قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ۖ کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ۔ میرے محترم بزرگو اور دوستو! کتاب ختم کرانا درحقیقت اُسی اُستاذ کا حق ہے جس اُستاذ نے سال بھر کتاب کو پڑھایا ہے۔ میں تو حکم کی تعمیل میں آگیا اور صبح سے اِس وقت تک مستقل سفر میں ہوں۔ بھوپال تھا صبح، وہاں سے دِلی آیا اور دِلی سے شہر میں گیا، فورًا ایک گھنٹہ رُک کرکے پھر آگیا ہوائی اَڈے اور اَب تک یہاں ہیں اور ساہیوال کا سفر ہے اِس لیے میرے لیے یہاں رُکنا بھی مشکل ہے۔ اللہ کا یہ اِحسان ہے آپ کے اُوپر اور فضل ہے کہ اُس نے اپنی بے شمار مخلوق میں سے منتخب کرکے علومِ نبوت کے سیکھنے کے لیے آپ کو یہاں پہنچادیا ہے، یہ اُس کا بڑا اِحسان ہے، اِنعام ہے، اِس پر اللہ کا جتنا شکر اَدا کیا جائے کم ہے ۔ علم ِ حدیث میں مشغولیت نبی علیہ السلام سے قربت : حدیث کے پڑھنے والے کا ایک گونا رِشتہ اور تعلق صاحب ِ حدیث جناب رسول اللہ ۖ سے ہو جاتا ہے۔ بڑے بڑے محدثین، خود اِمام بخاری اور اِمام طحاوی رحمة اللہ علیہما اور اِسی طریقے سے اِمام محی السنة، اِن کی زندگی کے واقعات میں اِس طرح کی بشارتیں ملتی ہیں کہ اِشتغال بالحدیث کی وجہ سے جناب رسول اللہ ۖ کی ذات ِ والا صفات سے اِن کو قربت حاصل ہے، اِس لیے انسان جہاں کہیں بھی علم ِ حدیث سے شغف رکھتا ہے بشرطیکہ وہ اِس اِعتبار سے کہ یہ علم آقائے نامدار علیہ الصلوٰة والسلام کی زبانِ مبارک سے نکلا ہوا ہے، آپ کی زندگی، آپ کے اَفعال، آپ کے اَقوال، آپ کی تقریر، آپ کی صفات جو آپ کی طرف منسوب ہیں وہ علم ِ حدیث ہے۔ اور اِس کا اِحترام اِسی طرح کرتا ہے جس اِحترام کا یہ علم مستحق ہے۔ تو اُس اِنسان کا تقرب،