ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
رِشوت اور خیانت میں دیگر اَقوام کے ساتھ ذرا بھی تردُّد نہ کرنا چاہیے۔ ہمیں کسی چیز کو خیر اور اعلیٰ اقدار کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں بس ضرورت اور مصلحت کو پیش ِ نظر رکھنا ہے۔ ہم اَقوامِ عالَم کے درمیان حسد و بغض و نفرت کے جذبات بھڑکاکر اور اُن کے اَخلاق و کردار کو تباہ و برباد کرکے ہی حکومت کرسکتے ہیں۔ ''گوییم'' (غیر یہودی اَقوام) بکریوں کے ریوڑ ہیں اور ہم اُن کے بھیڑیئے۔ (فری میسن) ماسونی تنظیم جو پوری دُنیا میں پھیلی ہوئی ہے ہماری مدد کررہی ہے، ہم کو چاہیے کہ ہم اِیمانی عقائد کی زنجیر توڑدیں۔ ہم جب اپنی مملکت حاصل کرلیں گے اُس وقت اپنے عقیدہ کے علاوہ ہم کسی عقیدہ کو نہیں رہنے دیں گے، اِس لیے ہمیں تمام اَدیان اور عقائد کا خاتمہ کردینا چاہیے۔ اگر اِس کے نتیجہ میں ملحدین پیدا ہوں تو کوئی حرج نہیں، یہ ہمارے نقطۂ نظر سے متصادم نہیں بلکہ ایک عبوری دَور ہے، عنقریب یہودی بادشاہ پوری دُنیا کا پوپ بن جائے گا۔ آج عقیدہ کی آزادی کا دَور دورہ ہے لیکن چند ہی سالوں میں عیسائیت کا مکمل سقوط ہوجائے گا پھر دُوسرے مذاہب کے ساتھ تصرف ہمارے لیے آسان ہوگا، ہم دینی نمائندوں کے اَثرات بہت محدود کردیں گے۔'' ١ صہیونیت یہودیوں کا نیا دین : میرا اِحساس یہ ہے کہ صہیونیت ایک سیاسی اور دینی تحریک کی حیثیت سے یہودی دین کا ضمیمہ ہے جو دوٹھوس بنیادوں تورات اور تلمود پر قائم ہے اور میرا خیال ہے کہ صہیونی ذمّہ داروں کے پروٹوکول دین ِ یہود کی تیسری بنیاد و اَساس ہیں۔ موجودہ یہودی دین کا حضرت موسٰی علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دین محرف ہے۔ یہودیوں کے مجرمانہ کردار کا پس ِ منظر وہ مظالم نہیں ہیں جن کا اُنہوں نے اپنی طویل تاریخ میں سامنا کیا بلکہ درحقیقت اُن کا یہ محرف دین ہی اُن کے مجرمانہ مزاج کا سبب ہے۔ تورات و تلمود اِن کے بگڑے ہوئے دینی پروہتوں اور پُجاریوں کی تعلیمات اور بزرگانِ صہیون کے تخریبی منصوبوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اُن کے اِس محرف دین نے اُن کے اَندر جُرم، کینہ، کرپشن، پستی و گراوٹ، درندگی، تعصب اور