ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
سب سے پہلے اِن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ شوہر ماں باپ سے چھوٹ جائے، یہ بہت ظلم کی بات ہے۔ (اِصلاح النساء ص ١٨٨) زیادہ بولنے کا مرض : حدیث شریف میں ہے مَنْ سَکَتَ سَلِمَ جو خاموش رہا اُس نے نجات پائی۔ واقعی زیادہ گناہ ہم لوگوں سے اِس زبان ہی کی بدولت ہوتے ہیں۔ خصوصًا عورتوں کو اِس قدر بولنے کا شوق ہوتا ہے کہ جب بیٹھیں گی تو باتوں کا وہ سلسلہ چلائیں گی کہ ختم ہی نہیں ہوگا۔ خدا جانے اُن کی باتیں اِتنی لمبی کیوں ہوتی ہیں اور جب یہ باتوں میں مشغول ہوجاتی ہیں تو اُن کی حالت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باتوں ہی کو اصلی مقصود سمجھتی ہیں۔ وہ مزے لے لے کر باتیں کرتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ترس ترس کر اِن کو دولت ملی ہے بخلاف مردوں کے کہ اُن کی باتوں اور تمام کاموں سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کو ختم کرکے وہ دُوسرے کام میں لگنا چاہتے ہیں۔ خدا کے واسطے اپنی عقل درست کرو۔ (الدنیا ص ١٠١) یاد رکھو ! زیادہ بولنے سے کوئی عزت نہیں ہوتی۔ عزت اُسی عورت کی ہوتی ہے جو خاموش رہے۔ اگر خاموش ہوکر ایک جگہ بیٹھ کر اللہ کا نام لے (تسبیح پڑھے) تو اُس کی بڑی قدر و وقعت ہوتی ہے۔ مگر باتیں کرنے کی جن کو عادت ہوتی ہے یہ کیسے چھوٹ سکتی ہے خواہ ذلت و رُسوائی ہو۔ کوئی اِن کی بات بھی کان لگا کر نہ سُنے لیکن اِن کو اپنی ہانکنے سے کام (یعنی بعض عورتوں کو باتیں کرنے کی) عادت پڑجاتی ہے جیسے نمرود کو جوتیاں کھانے کی عادت پڑگئی تھی)۔ قصّہ یہ ہوا تھا کہ جب نمرود نے خدائی کا دعوی کیا اور اِبراہیم علیہ السلام نے اُس کو بہت سمجھایا مگر نہ مانا اور برابر سرکشی کرتا رہا اور یہ کہا کہ اگر تو سچا ہے تو اپنے خدا کا لشکر منگالے۔ جانتا تھا کہ اِن کا مددگار ہے کون؟ اور اپنے لشکر پر گھمنڈ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وحی کے واسطے اُس کو اِطلاع دی کہ فلاں دن خدائی لشکر آئے گا تیار ہوجائو۔ چنانچہ اُس نے لشکر مہیا کیا اور خیال کرتا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہی خیال ہے چنانچہ تھوڑی دیر میں مچھروں کا ایک غول ایک جانب سے آیا اور ایک ایک مچھر نے ہر سپاہی کے دماغ میں گُھس کر اُس کا کام تمام کردیا (یعنی ہلاک کردیا) ۔نمرود یہ منظر دیکھ کر محل میں گُھس گیا۔ ایک لنگڑا مچھر آ کر اُس کی ناک میں گُھس گیا اور دماغ پریشان کردیا، اگر سر میں جوتا لگتا تو کچھ چین آجاتا تھا۔ چنانچہ جو آتا تھا