ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
نے کچھ کلام نہیں کیا۔ لیکن خود مولانا رحمہ اللہ یہ جواب دیتے ہیں کہ شافعیہ جب دُوسری بات میں خصوصیت کا قول کرتے ہیں تو ہم حنفیہ پہلی بات میں (بھی) خصوصیت کا قول کرتے ہیں اور اِس میں مولانا کشمیری رحمہ اللہ مدار ذوق ِسلیم کو بناتے ہیں۔ اِس کلام پر ہمارا تبصرہ : -1 مولانا کشمیری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اِنَّ ادِّعَائَ الْخُصُوْصِیَّةِ لَیْسَ لَہ ضَابِطَةً مُّعَیَّنَةً وَاِنَّمَا یُعْرَفُ ذٰلِکَ بِالذَّوْقِ السَّلِیْمِ یعنی خصوصیت کے لیے کوئی متعین ضابطہ نہیں ہے جس سے خصوصیت کی پہچان ہوسکے۔ اِس کو تو صرف ذوق ِسلیم سے پہچانا جاسکتا ہے۔ ہم کہتے ہیں مولانا رحمہ اللہ کی اِس بات سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ خصوصیت کو محض ذوق ِسلیم کی بنیاد پر ثابت نہیں مانا جاسکتا بلکہ اِس کے لیے قرائن و دلائل کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ اُوپر علامہ منذری کے حوالہ سے بھی ذکر ہوا۔ پھر خود مولانا رحمہ اللہ نے حضرت ابوبردہ کی خصوصیت کی جو مثال ذکر کی ہے اُسی کے ساتھ حدیث میں خصوصیت پر دلالت کرنے والے الفاظ بھی ہیں کہ وَقَالَ لَا تَجْزِیُٔ عَنْ اَحَدٍ بَعْدَکَ ( کہ تمہارے بعد یہ کسی اور کو کفایت نہ کرے گا)۔ ظاہری دلیل و قرینہ نہ ہونے کی صورت میں حکم کو صرف اُس وقت خصوصیت پر محمول کیا جاسکتا ہے جب اِس کی کوئی اور توجیہ ممکن نہ ہو اور جب کوئی اور توجیہ ممکن ہو تو خصوصیت پر محمول کرنا خلافِ اصل ہے۔ درس ِ حدیث حضر ت مولانا سید محمود میاں صاحب ( مہتمم جامعہ مدنیہ جدید) ہر انگریزی مہینے کے دُوسرے ہفتہ کو بعد از نماز ِ عصر5:30 بمقام 35-X فیزIII ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی لاہور میںمستورات کو حدیث شریف کا درس دیتے ہیں۔ خواتین کو شرکت کی عام دعوت ہے۔