ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
علامہ عبد العزیز بخاری رحمہ اللہ اُصولِ بزدوی پر اپنی شرح (کشف الاسرار ص ٢٠٦ ج١) میں لکھتے ہیں : یَعْنِیْ کَمَا اَنَّ الْمُعْتَبَرَ اَلْعَجْزُ الْحَالِیْ فِیْمَا ذَکَرْنَا فَکَذٰلِکَ ھُوَ الْمُعْتَبَرُ فِیْ جَمِیْعِ الْکَفَّارَاتِ فِیْ نَقْلِ الْحُکْمِ عَنْ وَّاجِبٍ اِلٰی مَابَعْدَہ مِثْلَ کَفَّارَةِ الظِّھَارِ وَالصَّوْمِ وَالْقَتْلِ فَلْیُعْتَبَر فِیْ جَمِیْعِھَا اَلْعَجْزُ الْحَالِیْ فِیْ نَقْلِ الْحُکْمِ عَنِ الرَّقَبَةِ اِلَی الصَّوْمِ وَکَذٰلِکَ فِی النَّقْلِ عَنِ الصَّوْمِ اِلیَ الْاِطْعَامِ فِیْ کَفَّارَةِ الصَّوْمِ وَالظِّھَارِ حَتّٰی لَوْمَرِضَ اَیَّامًا کَفَّرَ بِالْاِطْعَامِ جَازَ وَاِنْ قَدَرَ عَلَی الصَّوْمِ بَعْدُ ۔ یعنی جیسے موجودہ عجز اِس مذکور میں معتبر ہے اِسی طرح وہ تمام کفاروں میں بھی معتبر ہے اور حکم ایک واجب سے اگلے واجب کی طرف منتقل ہوجاتا ہے مثلاً کفارہ ظہار اور کفارہ صوم اور کفارہ قتل اِن سب میں غلام آزاد کرنے سے روزے رکھنے کی طرف حکم کے منتقل ہونے میں موجودہ عجز ہی کا اعتبار ہونا چاہیے۔ اور اِسی طرح کفارہ ظہار اور کفارہ صوم میں روزے رکھنے سے کھانا کھلانے کی طرف حکم کے منتقل ہونے میں موجودہ عجز ہی کا اِعتبار ہونا چاہیے اِس لیے اگر کوئی شخص چند ایام بیمار رہا اور اُس دوران اُس نے کھانا کھلادیا تو جائز ہے اگرچہ بعد میں اُس کو روزے رکھنے کی قدرت حاصل ہوجائے۔ روزہ توڑنے سے متعلق حدیث میں جو واقعات ذکر ہوئے ہیں اُن میں سے ایک میں ہے کہ جب رسول اللہ ۖ نے صاحب ِقصہ سے پوچھا فَھَلْ تَسْتَطِیْعُ اَنْ تَصُوْمَ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ یا اُن سے فرمایا صُمْ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تو اُنہوں نے فورًا یہ جواب دیا کہ لَااَسْتَطِیْعُ یا لَااَقْدُرُ یعنی مجھے متواتر دو مہینے کے روزے رکھنے کی طاقت و اِستطاعت نہیں ہے اور رسول اللہ ۖ نے بلا کسی پس و پیش کے اِن کی بات کو قبول فرمالیا اور اُن کو اگلی شق یعنی اِطعام کا حکم دیا حالانکہ وہ صاحب ِتندرُست و توانا تھے کہ رمضان کے روزے بھی رَکھ رہے تھے اور پھر روزے ہی کی حالت میں جماع کیا تھا۔ اِس قصّہ میں شدتِ شہوت کا مسئلہ بھی نہیں تھا کیونکہ ظہار کے کفارہ کے برعکس وہ اپنے کفارہ میں روزوں کی اَدائیگی کے ساتھ