ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2007 |
اكستان |
|
اور اُس میں اِن عوارض کا لحاظ نہ کیا جائے جو روزہ رکھنے میں مشقت کے موجب ہیں یا (٢) وہ صحت و تندرُستی مراد ہے جو خاص اَدائیگی کے وقت ہو یا (٣) وہ صحت و تندرُستی مراد ہے جس میں مشقت کے موجب عوارض نہ ہوں مثلاً شدت ِشہوت، بھوک کی عدم برداشت اور روزے کا طبیعت پر گراں ہونا یا دُوسرے لفظوں میں روزے کی عادت نہ ہونا۔ روزے کی اِستطاعت اُس وقت ہے جب مشقت کے موجب عوارض نہ ہوں اور اِستطاعت میں اَدائیگی کے وقت کا اِعتبار ہے : ہم نے دلائل پر جتنا غور کیا ہے اُس سے ہمارے سامنے یہ بات آئی ہے کہ دو مہینے متواتر روزے رکھنے کی استطاعت میں ادائیگی کے وقت کا بھی اعتبار ہے اور مشقت کے موجب عوارض کا بھی اعتبار ہے اور کفارہ میں متواتر ساٹھ روزے رکھنے کی اِستطاعت اُس وقت کہلائے گی جب ادائیگی کے وقت صحت و تندرُستی بھی ہو اور مشقت کے موجب عوارض بھی نہ ہوں۔ دیکھیے ایک صحابی نے اِس وجہ سے کہ کہیں رمضان میں اپنا روزہ نہ توڑ بیٹھیں اپنی بیوی سے ظہار کر لیا لیکن پھر ایک رات اُن سے صبر نہ ہوسکا اور بیوی سے صحبت کر بیٹھے۔ پھر آکر رسول اللہ ۖ کو خبردی۔ آپ نے جب اِن کو کفارے میں متواتر ساٹھ روزے رکھنے کو کہا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ھَلْ اَصَبْتُ الَّذِیْ اَصَبْتُ اِلَّا مِنَ الصِّیَامِ اور اِس طرح اپنی شدتِ شہوت کی طرف اِشارہ کیا جس کا بیان حدیث کے شروع میں ہوا ہے کہ کُنْتُ امْرَأً اُصِیْبُ مِنَ النِّسَائِ مَالَایُصِیْبُ غَیْرِیْ۔ (ابوداود۔ باب فی الظِھار) اور بتایا کہ اِن میں شدت ِشہوت کی وجہ سے متواتر روزے رکھنے کی اِستطاعت نہیں ہے۔ اِس جواب پر رسول اللہ ۖ نے فرمایا فَاَطْعِمْ وَسَقًا مِّنْ تَمْرٍ بَیْنَ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا۔ آپ ۖ نے نہ تو اِن سے یہ فرمایا کہ ابھی توصدقہ دے دو پھر بعد میں کبھی عمر بھر میں شہوت کی شدت ٹوٹ جائے تو متواتر ساٹھ روزے رکھنا اور نہ ہی یہ فرمایا کہ تم صحت مند و تندرُست ہو اور تم میں روزے رکھنے کی اِستطاعت ہے لہٰذا تم کو روزے ہی رکھنے ہوں گے۔ غرض آپ ۖ نے ایک تو اَدائیگی کے وقت اِستطاعت کے ہونے نہ ہونے کا اِعتبار کیا اور دُوسرے محض صحت و تندرُستی کو کافی نہ سمجھا بلکہ شدتِ شہوت کی موجودگی کا بھی اِعتبار کیا۔